کیا گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے یا پاکستان کا | گلگت بلتستان کا مسئلہ اور حقائق

گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے یا بھارت پاکستان کا 

آج ہم بات کریں گے گلگت بلتستان پر.کیا گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے، کشمیر کا حصہ ہے یا پھر بھارت کا حصہ ہے. ان تمام سوالات کے جوابات آپ کو آج ملیں گے. 

اگر دیکھا جائے تو ان سوالوں میں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں

گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے یا پاکستان کا تمام حقائق
Is Gilgit baltistan is Part of Kashmir or Pakistan 


جیسا کہ اگر گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے تو پھر آج تک گلگت بلتستان کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا یا پھر پاکستان کا صوبہ کیوں نہیں بنایا گیا.

اور اگر گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے تو پھر یہ متنازعہ علاقہ ہے. 

ان تمام سوالوں کے جواب تاریخ کو اقوام متحدہ کی قراردادں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیے جائیں گے.



معاہدہ امرتسر 

1846 میں انگریزوں نے جموں و کشمیر گلگت بلتستان اور لداخ کے علاقے سکھوں سے چھین کر مہاراجہ گلاب سنگ ڈوگرہ کو ایک معاہدے کے تحت دیے. 84471 یا 84971 مربع میل پر مشتمل یہ علاقے مہاراجہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کو نسل در نسل حکومت کرنے کے لیے دیے گئے.

1935 معاہدہ  گلگت 

روس میں کیمونسٹ انقلاب کے بعد برطانیہ کو ان علاقوں کی اہمیت کا احساس ہوا. برطانیہ کو یہ خطرہ پیدا ہوا کے کہیں کمیونزم اس راستے سے برصغیر میں داخل نہ ہو جائے. 

فوجی ماہرین کی رائے کے مطابق یہاں ایک مظبوط فوج رکھنے کا فیصلہ کیا گیا. چنانچہ اس صورتحال سے مہاراجہ کشمیر کو آگاہ کیا گیا. روس کی سرحد کے ساتھ ایک پٹی 60 سالہ پٹے (یعنی لیز) پر حاصل کرنے کے لیے مہاراجہ کشمیر کو راضی کیا گیا. چنانچہ 29 مارچ 1935 کو گلگت ایجنسی کا مختصر علاقہ 60 سال کے لئے لیز پر دے دیا گیا.


 

اس معاہدے پر برطانیہ کی طرف سے کرنل ایل ای لانگ اور کشمیر کی طرف سے مہاراجہ ہری سنگھ نے دستخط کئے. 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لیز پر کتنا علاقہ برطانیہ کو دیا گیا تھا اور لیز پر دیے گئے علاقے سے مہاراجہ کشمیر کا اقتدار ختم ہو گیا تھا یا نہیں؟ 



مورخین کے مطابق 1480 یا 14480 مربع میل علاقہ لیز پر دیا گیا تھا. 

کشمیر کا سرحدی صوبہ جس میں گلگت بلتستان و لداخ شامل ہیں 63554 مربع میل پر مشتمل ہے اور گلگت کا 1480 یا 14480 مربع میل علاقہ لیز پر دیا گیا. 

کیسی علاقے کو لیز پر دینے سے حق ملکیت ختم نہیں ہو سکتا اور تاریخ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ علاقے کشمیر کے اقتدار اعلی میں رہے. برطانوی حکومت اور مہاراجہ کے درمیان ہونے والے معاہدے میں یہ واضح لکھا ہے کہ یہ علاقے مہاراجہ کی ریاست میں تصور کیے جائیں گے ایجنسی ہیڈ کوارٹر پر ریاست کا پرچم برقرار رہے گا. 

1934، 1938، اور 1941 میں منتخب ہونے والی اسمبلی میں بھی ان علاقوں کے نمائندے شامل تھے. 

1934 میں من تھونٹ شاہ اور کالن زانگلو لداخ سے افتخار علی خان آف خپلو اسکردو سے سید وجاہت علی شاہ کرگل سے اور وزیر محمد خان استور گلگت سے نمائندے تھے. 

1941 میں مسٹر جگمت دادول اور نونو رنچن لداخ سے مسٹر فتح علی خان اسکردو سے مسٹر احمد علی خان کرگل سے اور راجہ غلام رضا خان استور گلگت سے نمائندے تھے. 

جب انگریز ہندوستان چھوڑ کر جا رہے تھے تو 3 جون 1947 کی منصوبہ بندی کے تحت طے پایا کہ برطانیہ اپنا قبضہ ہندوستان سے ختم کر دے گا اور وہ تمام معاہدے جو برطانوی ہند کی شخصی ریاستوں سے طے ہوے ہیں خود بہ خود منسوخ ہو جائیں گے. 

چنانچہ اسی اصول کے تحت معاہدہ گلگت بھی منسوخ ہو گیا اور یہ طے پایا کہ وہ تمام علاقے جو برطانوی حکومت نے مہاراجہ کشمیر سے لیز پر لیے تھے یکم اگست کو حکومت کشمیر کو واپس کر دیے جائیں گے. 

مہاراجہ کشمیر کے حکم سے وزیراعظم کشمیر رام چند کاک نے 12 جولائی 1947 کو ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں وزارتِ گلگت کو صوبے کا درجہ دے کر برگیڈیر جنرنل سٹاف گھنسارا سنگھ کو صوبے کا گورنر تعینات کیا گیا. 30 جولائی 1947 کو گھنسارا سنگھ نے گلگت پہنچ کر چارج سنبھال لیا. 

1935 میں گلگت کے جو علاقے برطانوی حکومت کو لیز پر دیے گئے تھے بالآخر 1 اگست 1947 کو عملی طور پر ان علاقوں پر مہاراجہ کی عمل داری قائم ہو گئی.

گلگت بلتستان کا علاقہ 1947 ہی میں آزاد کرا لیا تھا. یہ کامیاب جنگ وہاں کے مقامی لوگوں اور جو مسلم فوج تعینات تھی نے لڑی. مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کو خودمختار رکھنا چاہتا تھا. 12 اکتوبر کو جب کشمیر پر قبائلی حملہ ہوا تو مہاراجہ ہری سنگھ گھبرا کر سرینگر سے جموں فرار ہو گیا. 

26 اکتوبر 1947 کو راجہ ہری سنگھ نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن جو گورنر جنرل ہند تھا کو خط لکھ کر فوجی مدد کی اپیل کی. ہندوستان نے فوجی مدد کو الحق سے مشروط کیا مجبوراً مہاراجہ سے الحاق نامے پر دستخط لیے گئے. 27 اکتوبر 1947 کو ہندوستانی فوج ریاست کے دارالحکومت سرینگر کے ہوائی اڈوں پر اترنا شروع ہو گئی.


 

پاکستانی فوج بھی اعلانیہ طور پر ریاست میں داخل ہو گئی. گلگت کے لوگوں نے بھی بغاوت کر دی گورنر گلگت گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا. اپنے ایک بیان میں عمران خان نے میجر براؤن کو گلگت کا فتح کرار دیا مگر تاریخ میں فتح گلگت کرنل مرزا حسن کہلاے جو گلگت کے ایک بہادر بیٹے تھے. 

حقائق 

مندرجہ ذیل حقائق اس حقیقت کی پوری وضاحت کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے علاقے ریاست جموں کشمیر کے آئینی حصے ہیں۔ پاکستان کے نہیں۔

سروے آف پاکستان کی طرف سے شائع ہونے والے سرکاری نقشوں اور ریاست کے دونوں حصوں کی حکومتوں کی طرف سے شائع کئے جانے والے ریاست جموں کشمیر کے نقشوں میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کا حصہ دکھایا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی طرف سے شائع ہونے والے دنیا اور برصغیر کے نقشوں میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کا حصہ دکھایا جاتا ہے۔ 

اقوام متحدہ اور عالمی بنک کے نقشوں میں گلگت بلتستان سمیت ریاست جموں کشمیر کو بھارت اور پاکستان دونوں سے الگ تھلگ دکھایا جاتا ہے اور فٹ نوٹس میں واضح کیا جاتا ہے کہ ریاست جموں کشمیر بھارت یا پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔ ان نقشوں میں یہ وضاحت بھی کی جاتی ہے کہ نقشے کے فٹ نوٹس میں درج بھارت اور پاکستان کے رقبوں اور آبادیوں کے بارے میں دیئے گئے اعداد و شمار میں ریاست جموں کشمیر کی آبادی اور رقبہ شامل نہیں۔

پاکستان کے موجودہ آئین سمیت جتنے بھی آئین پاکستان میں نافذ ہوئے ان میں سے کسی ایک میں بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ تسلیم نہیں کیا گیا۔

پاکستان کی سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ نے کئی بار اس بات کی وضاحت کی ہے کہ گلگت بلتستان کے علاقے ریاست جموں کشمیر کے آئینی حصے ہیں پاکستان کے نہیں اور ان کی آئینی حیثیت آزاد کشمیر سے کسی طرح مختلف نہیں۔

اگرچہ 1935ء میں گلگت کے کچھ علاقے انگریزوں نے ریاستی حکومت سے لیز پرلے تھے لیکن یہ علاقے انہوں نے یکم اگست 1947ء کو قیام پاکستان سے دو ہفتے پہلے ہی ریاست جموں کشمیر کو لوٹا دیئے تھے۔ ریاستی حکومت نے گلگت بلتستان اور لداخ کو لا کر انہیں ریاست کے تیسرے صوبے ( جموں اور وادی کشمیر کے علاوہ ) کا درجہ دیا گیا اور بریگیڈر گھنسارا سنگھ کو اس تیسرے صوبے کا گورز مقرر کیا تھا۔ جس نے 2 اگست 1947ء کو اپنے عہدے کا چارج لیا تھا۔ اس موقع پر گلگت کے علاوہ سرینگر میں بھی جشن منایا گیا اور چراغاں کیا گیا تھا۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 1935ء اور 1947ء کے درمیانی عرصے میں بھی گلگت کا علاقہ استور اور بلتستان کا سارا علاقہ ریاستی حکومت کے زیر انتظام تھے۔ یہ علاقے انگریزوں کے زیر انتظام بھی نہیں رہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گلگت کے جو علاقے 12 سال تک انگریزوں کے زیر انتظام رہے اس دوران بھی گلگت میں انگریزوں کے جھنڈے کے ساتھ ریاست کا جھنڈا بھی لہراتا تھا اور سرکاری دفاتر میں نچلے درجے کا عملہ ریاستی ہو تا تھا صرف اعلی افسر انگریز تھے۔

بنزہ اور نگر کے راجے اور پولیٹیکل ڈسٹرکٹ کے گورنر بھی ریاستی حکومت کے ماتحت تھے۔

1934 سے ریاست جموں کشمیر کی اسمبلی کے قیام سے 1947ء تک اس اسمبلی میں گلگت بلتستان کے علاقوں کو نمائندگی حاصل تھی۔ اب بھی مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لئے مختص 25 نشستیں خالی ہوتی ہیں۔


پاکستان اور بھارت دونوں نے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے بھارت و پاکستان کی قراردادں کو تسلیم کیا ہے اور ان پر دستخط کئے ہیں ۔ ان قراردادوں کے تحت جنہیں پاکستان آج بھی تسلیم کرتا ہے اور ان کے تحت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے ریاست کے دوسرے حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی ریاست کے مستقبل کے تعین کے لئے رائے شماری ہونی تھی۔ اگر یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہوتے تو پاکستان یہ بات کیسے تسلیم کرتا کہ اس کے علاقے میں ریاست جموں کشمیر کے مستقبل کے بارے میں رائے شماری ہو۔ 


ریاست جموں کشمیر میں بھارت کے زیر تسط علاقے اور ریاست کے بھارت سے آزاد شد علا قوں کے درمیان ان کو سیز فائر لائن (اب لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے) جبکہ بھارت کو پاکستان سے جدا کرنے والی لائن کو پاک بھارت سرحد کہا جاتا ہے۔


اگر گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہوتے تو گلگت بلتستان کو مقبوضہ کشمیرے جدا کرنے والی لائن کو پاک بھارت سرحد کہا جاتا لیکن اس لائن کو سیز فائر لائن کہا جاتا ہے۔ صرف اس لئے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے۔ 


1949ء میں پاکستان کے مرکزی وزیر بے محکمہ نواب مشتاق احمد گورمانی مرحوم آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس مرحوم اور آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد ابراہیم خان کے مابین آزاد کشمیر و گلگت بلتستان پر متعلق معاملات کے بارے میں ہونے والے (15 شقوں پر مشتمل ) معاہدے کے شق نمبر A viii کے تحت گلگت بلتستان کے انتظامی اختیارات عارضی طور پر حکومت پاکستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کو دیئے گئے۔ اگر گلگت بلتستان پاکستان کے آئینی حصے ہوتے تو اس معاملے میں آزاد کشمیر کی حکومت اور مسلم کانفرنس (جو اس وقت کشمیر کی حکمران پارٹی تھی) کے صدر کے دستخط لینے یا ان میں فریق بنانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔


جہاں تک گلگت بلتستان کے کچھ لوگوں کے اس استدلال کا تعلق ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں نے 1947 میں ہی پاکستان سے الحاق کیا ہے۔ اس کا نہ تو پاکستان کے آئین میں کوئی ذکر ہے نہ اس بارے میں دستاویز کا کوئی وجود ہے۔ نہ ہی معلوم ہے کہ یہ الحاق کس تاریخ کو ہوا اور کسی نے کیا تھا۔ اور اگر کسی نے یہ الحاق کیا بھی تھا تو اسے ایسا کرنے کا کون سا آئینی حق حاصل تھا۔ 


یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اب تک پاکستان کی کی زمہ دار شخصیت نے اس مفروضہ الحاق کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ نہ ہی حکومت پاکستان کی طرف سے آج تک سرکاری طور پر اس سلسلے میں کوئی اعلان ہوا ہے۔ اگر کچھ لوگوں کے اس بے بنیاد موقف کو تسلیم کیا جائے تو بھارتی مقبوضہ کشمیر جہاں ریاست کی دو تہائی آبادی رہتی ہے کو بھارت کا آئینی حصہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ کیونکہ مہاراجہ کشمیر نے بھارت سے الحاق کیا تھا جس کی توثیق بعد میں مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی نے بھی کی۔ ان تمام حقائق کے پیش نظر گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ قرار دینا یا ان علاقوں کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا مطالبہ یا پاکستان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی طلب کرنا یہی نہیں کہ غیر آئینی ہے بلکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے غداری کے مترادف ہے۔ 


1949ء میں نواب گورمانی ، چوہدری غلام عباس (مرحوم) اور سردار محمد ابراہیم کے مابین ہونے والے جس معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کے انتظامی امور عارضی طور پر حکومت پاکستان کو تفویض کئے گئے تھے اس معاہدے کی کے تحت آزاد کشمیر کے دفاع ، امور خارجہ اور اندرونی سیکیورٹی سے متعلق جملہ معاملات حکومت پاکستان کو تفویض کئے گئے تھے۔ اگر امور خارجه دفاعی معاملات اور اندرونی سیکیورٹی سے متعلق امور پاکستان کے ہاتھ میں رہنے کے باوجود آزاد کشمیر پاکستان کا آئینی حصہ نہیں تو سول انتظامی امور پاکستان کے تحت ہونے سے گلگت بلتستان کا علاقہ پاکستان کا حصہ کیسے بن سکتا ہے۔


1963ء میں پاکستان اور چین کے مابین گلگت بلتستان اور چین کی سرحدی حدبندی کے بارے میں جو معاہدہ ہوا اس میں بھی گلگت بلتستان کے علاقوں کو واضح طور پر ریاست جموں کشمیر کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے۔


1993ء میں آزاد کشمیر کی ہائی کورٹ نے ملک مسکین اور امیر جان آف ضلع دیامیر کی طرف سے دائر کی جانے والی رٹ ( جس میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سمیت تقریبا جملہ کشمیری سیاسی تنظیمیں بھی ملک مسکین وغیرہ کے ساتھ فریق تھیں) میں فیصلہ دیتے ہوئے پوری طرح واضح کیا کہ گلگت بلتستان کے علاقے تاریخی اور آئینی حیثیت سے ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہیں۔


 ہائی کورٹ نے آزاد کشمیر کی حکومت سے کہا کہ وہ ان علاقوں کا انتظامی کنٹرول سنبھالے۔ اس فیصلے کے خلاف آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت( یعنی یہ علاقے ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہیں) کے بارے میں ہائی کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کے بغیر فیصلہ دیا کہ آزاد کشمیر ایکٹ 1974 (جو وزارت امور کشمیر کا مرتب کیا ہوا ہے) کے تحت آزاد حکومت کو یہ حق اور اختیار حاصل نہیں کہ وہ موجوده آزار کشمیر سے باہر ریاست کے کسی علاقے کا انتظامی کنٹرول سنبھالے۔ الغرض آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی نظر میں بھی گلگت بلتستان کے علاقے ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہیں۔

 یہ حقائق اس بات کی پوری اور ناقابل تردید وضاحت کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے علاقے ریاست جموں کشمیر کے آئینی حصے ہیں۔ پاکستان کے نہیں۔

موجودہ کنفیوژن میں پاکستان کا حصہ 

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق درج بالا صاف ستھرے اور تاریخی حقائق کو پس پشت ڈال کر اس سلسلے میں کنفیوژن پیدا کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ وزارت امور کشمیر کی افسر شاہی کے چھے کل پرزوں اور گلگت بلتستان کے کچھ کوتاه نظر لیڈروں کا ہے۔ گلگت بلتستان کی نئی نسل کو 1948ء سے ہی افسرشاہی یہ سبق پڑھاتی رہی ہے کہ ان علاقوں کا پاکستان سے الجاق ہو چکا ہے اور یہ کہ ان علاقوں کا ریاست جموں کشمیر سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں تک کہ افسرشاہی نے ان علاقوں کے علاقائی تشخص کو ختم کرنے کے لئے ان کا نام شمالی علاقہ جات ( ناردرن ایریاز ) رکھ دیا گیا اگر دیکھا جائے تو یہ گلگت بلتستان کے تشخص پر ایک کاری ضرب ہے۔

یہی نہیں بلکہ افسر شاہی نے یہ تاثر دینے کے لئے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ، وزارت امور کشمیر کا نام بدل کر وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات رکھ دیا۔

ٹائپنگ کی غلطیوں کی لیے معذرت۔

اس تحریر کو پڑھ کر اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کر کہ ان کے علم میں اضافہ کرنے کا سبب بنے۔ شکریہ

کاپی پیسٹ کرنے سے گریز کریں. لنک سے شئر کریں 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے