معاہدہ امرتسر 16 مارچ 1846 - پس منظر، غلط فہمی، نکات - جموں کشمیر

معاہدہ امرتسر 16 مارچ 1846 

 ایک غلط فہمی 

معاہدہ امرتسر کے حوالے سے عام طور پر یہ غلطی پائی جاتی ہے کہ انگریزوں نے کشمیر کا علاقہ گلاب سنگھ کو فروخت کیا تھا اور گلاب سنگھ نے 75 لاکھ نانک شاہی کے بطور قیمت ادا کر کے یہ علاقے خرید لئے تھے۔

معاہدہ امرتسر 16 مارچ 1846 Amritsar Treaty
Treaty of Amritsar 1846 معاہدہ امرتسر 


یہ تصور سراسر غلط اور تاریخی حالات و واقعات کے منافی ہے۔


اصل حقیقت یہ ہے کہ سلطنت پنجاب اور انگریزوں کی جنگ میں پہل سکھوں کی طرف سے ہوئی تھی۔ اس جنگ میں انگریزوں کواگر چه جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا لیکن میدان انگریزوں کے ہاتھ میں رہا اور سکھ شکست سے دو چار ہوئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ڈیڑھ کروڑ نانک شاہی سکہ بطور تاوان جنگ کے سلطنت سے طلب کیا۔ ان کی اس رقم کی ادائیگی تک انہوں نے ستلج اور بیاس کے در میان دو آبہ، چمبہ، کشمیر، ہزارہ اور ان سے ملحقہ تمام کوہستانی علاقہ جات سے سکھوں کی علمداری ختم کر دی. 


رانی جنداں اور دوسرے سکھ جرنیل تاوان کی اتنی بڑی رقم ادا کرنے کے قابل نہیں تھے۔ انہوں نے مشکل سے پچاس لاکھ روپے ادا کیے اور بقیہ ایک کروڑ کی ادائیگی تک مذکورہ بالاعلاقوں پر انگریزوں کی عملداری تسلیم کر لی۔ اس صورتحال کو جب مہاراجہ گلاب سنگھ نے دیکھاتواس نے انگریزوں سے رابطہ کیا اور انہیں یہ پیشکش کی کہ اگر سکھ دربار تاوان کی بقیہ رقم ادانہ کر پائے تو وہ اپنی گرہ سے یہ رقم ادا کرنے پر تیار ہے. 


بشرطیکہ ایسٹ انڈیا کمپنی مذکورہ بالا علاقوں کا اقتدار اعلی اسے تفویض کر دے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مہاراجہ گلاب سنگ کی پیشکش قبول کرلی۔



گلاب سنگھ 


گلاب سنگ نہایت چالاک، دور اندیش، جہاندیدہ اور محب وطن انسان تھا، اس نے جموں کے ایک معمولی گھرانے میں آنکھ کھولی اور عام تنخوادار سپاہی کی حیثیت سے پنجاب کے حکمران رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ ہو گیا۔ وہ اپنے دو بھائیوں دھیان سنگھ اور سوچپیت سنگ کوبھی اس در بار میں لے گیا۔ ان تینوں بھائیوں نے اپنی قابلیت محنت اور شجاعت و بہادری کی بنیاد پر رنجیت سنگھ کا بے پناہ اعتماد حاصل کرلیا اور سکھ سلطنت کے کرتا دھرتا بن گئے ۔


رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اس کے جانشین اقتدار کی کشمکش میں الجھ گئے ، خانہ جنگی کا ایسا دور شروع ہوا کے مرکزی حیثیت رکھنے والے بہت سے ذمہ دار افراد مارے گئے ۔ اس کشمکش میں گلاب سنگھ کے دونوں بھائی بھی قتل ہو گے ۔ گلاب سنگھ نے اس صورت حال سے نالاں ہو کر اپنی تمام تر توجہ جموں کشمیر پر مرکوز کر دی اور سکھ دربار سے الگ ہو گیا۔ 


نومبر 1845ء میں جب ایک طرف سکھ اقتدار کی رسہ کشی میں الجھے ہوئے تھے تو دوسری طرف انہوں نے دریائے ستلج پار کر کے انگریزی علاقے پر حملہ کر دیا۔ چنانچہ سکھوں اور انگریزوں کے خون ریز معرکے شروع ہو گئے ۔ رنجیت سنگھ کی بیوہ رانی جنداں نے جب سلطنت کا شیرازہ بکھرتے دیکھا تو اس نے والی جموں راجہ گلاب سنگھ کو مدد کیلئے بلایا اور اسے لاہور دربار میں وزارت عظمی پر فائز کیا۔ گلاب سنگھ نے مطالبات پر قابو پانے کے لئے سکھ سرداروں کو جنگ روک دینے کا حکم دیا لیکن جب کہ سرداروں نے اس کا حکم نہ مانتے ہوئے جنگ جاری رکھی تو وہ لاہور دربار سے علیحدگی اختیار کر کے واپس جموں آ گیا۔ کیونکہ تیزی سے روبہ زوال ہوتی ہوئی سکھ سلطنت سے زیادہ اسے اپنے آبائی وطن کی فکر و امن گیر تھی۔


10 فروری 1846 کو سبھراؤں کے معرکے میں فتح یاب ہونے کے بعد جب انگریز لاہور میں داخل ہوئے تو انہوں نے ڈیڑھ کروڑ تاوان جنگ اور بہت سے علاقہ جات مانگ لئے ۔ ان علاقوں میں گلاب سنگ کا آبائی علاقہ جموں بھی شامل تھا۔ گلاب سنگھ نے اپنے موروثی علاقے سمیت تمام کوہستانی علاقہ انگریزوں کے تناظر میں جاتے دیکھے تو اس نے تاوان کی رقم اپنی گرہ سے ادا کر کے یہ علاقے اپنے اختیار میں لے لینے کی تدبیر بنائی. 


گلاب سنگ کو معلوم تھا کہ سکھ سلطنت کا خزانہ خالی ہے اور وہ رقم دے نہیں پائیں گے. چنانچہ اس نے براہ راست انگریزوں سے بات چیت کی ۔ اور تاوان جنگ کی رقم اپنی گرہ سے ادا کر نے کی پیشکش کی بشرطیکہ اسے ان علاقوں کا آزار فرمانروا تسلیم کر لیا جائے ۔ انگریزوں نے یہ پیشکش قبول کر لی ۔


 جب معاہدہ طے پانے لگا تو رقم کی کمی کی وجہ سے گلاب سنگھ نے 25 لاکھ کے عوض بیاس اور راوی کے درمیانی علاقے چھوڑ دیے ، بقیہ 75 لاکھ کے عوض دریائے راوی کا مغربی علاقے چمبہ کشمیر اور ہزارہ حاصل کر لیا۔


 جی ایم میر اپنی تصنیف "کشور کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں لکھتے ہیں:

انگریزوں نے مصارف جنگ کے تاوان کے طور پر ایک کروڑ روپیہ طلب کیا. دلیپ سنگھ کا خزانہ خالی تھا، اس نے کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ انگریزوں کے حوالے کر دیا۔ انگریزوں کو پیسے کی ضرورت تھی ، انہوں نے 75 لاکھ روپے کے عوض ریاست جموں کشمیر کی حکمرانی گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر کے اسے مہاراجہ کا خطاب دیا ۔


معاہدے کی دفعہ 3 کی رو سے مہاراجہ گلاب سنگھ نے کمپنی کو 50 لاکھ موقع پر اور بقیہ 25 لاکھ اس سال یکم اکتوبر تک یا اس سے پہلے ادا کرنا تھا۔ 50 لاکھ گلاب سنگھ نے بروقت ادا کر دیے لیکن بقیہ رقم دو سال کے عرصے میں کئی قسطوں میں ادا کی گئی ۔ اس عرصے میں فریقین کے مابین خط وکتابت بھی جاری رہی ۔ بالآخر ایسٹ انڈیا کمپنی نے ادائیگی رقم کی رسید 20 مارچ 1850 کو جاری کی ۔




عہد نامہ امرتسر 16 مارچ1846ء


دفعه. 1: برطانوی حکومت وہ تمام پہاڑی علاق معہ نواحات جو دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب میں واقع ہیں بشمول چمبہ ماسوائے لاہول کے ، جو اس علاقے کا حصہ ہے جو لاہور دربار نے معابد 9 مارچ 1846 کی دفعہ 4 کے تحت حکومت برطانیہ کے سپرد کیا ہے مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کی اولاد کے مستقل اور کلی اختیار میں دیتی ہے۔


دفعه .2: جو علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ کو اس عہد نامے کی دفعه اول کے تحت منتقل کیا جارہا ہے۔ اس کی سرحدی حدود کا تعین وہ کمشنر کریں گے، جنہیں برطانوی حکومت اور مہاراجہ گلاب سنگه مقرر کریں گے۔ ان حدود کی نشاندہی ایک علیحد اقرار نامے کے تحت کی جائے گی۔


دفعه: 3 مذکورہ بالا دفعات کے تحت جو علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ اور اس کے وارثوں کو منتقل کیا جارہا ہے، اس کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ برطانوی حکومت کو 75 لاکھ نانک شاہی روپے ادا کریں گے. جس میں سے 50 لاکھ تو اس کے معاہدے کے انعقاد پر دیا جائے گا اور بقیہ 25 لاکھ کہ اسی سال کی یکم اکتوبر کو یا اس سے پہلے ادا کیا جائے گا۔


دفعہ: 4 مہاراجہ گلاب سنگھ برطانوی حکومت کی رضامندی کے بغیر اپنے ملک کی حدود میں تغیر وتبدل نہیں کریں گے۔


دفعه:5 اگر مہاراجہ گلاب سنگھ اور حکومت لاہور یا کسی اور ہمسایہ سلطنت کے مابین جھگڑا یا مسئلہ پیدا ہو جائے تو مہاراجہ موصوف اس تنازعہ کو ثالثی کے لئے برطانوی حکومت کے سپرد کر یں گے اور اس کے فیصلے کی پابندی کریں گے۔


دفعه:6 مہاراجہ گلاب سنگھ خود اور اپنے وارثوں کی طرف سے عہد کرتے ہیں کہ اگر برطانوی فوج ان کے ملک کے پڑوسی علاقوں میں مصروف کار ہو گی تو وہ اپنی ساری فوجی قوت کے ساتھ برطانوی فوج کے ساتھ شامل ہوں گے۔


دفعه :7 مہاراجہ گلاب سنگھ عہد کرتے ہیں کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی اجازت کے بغیر کسی برطانوی ، یورپی یا امریکی باشندے کو اپنے ماتحت ملازم نہیں رکھیں گے۔


دفعه 8 : مہاراجہ گلاب سنگھ عہد کرتے ہیں کہ جہاں تک ان کے حق میں منتقل ہونے والے علاقوں کاتعلق ہے وہ برطانوی حکومت اورا لاہور دربار کے مابین طے پانے والے معاہدہ 9 مارچ 1846 کی دفعات نمبر 5. 6. 7 کا احترام کریں گے۔


دفعه : 9 برطانوی حکومت عہد کرتی ہے کہ وہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے ملک کو بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے مہاراجہ کی مدد کریں گے۔


دفعه :10 مہاراجہ گلاب سنگھ برطانوی حکومت کے اقتدار اعلی کو تسلیم کرتے ہیں اور احترام کے پیش نظر برطانوی حکومت کو ہر سال ایک گھوڑا ، اچھی نسل کی 12 پشمی بکریاں اور تین جوڑ ے کشمیری شالوں کے پیش کریں گے ۔ 


یہ معاہدہ امر تسر کے مقام پر 16 مارچ 1846ء بمطابق 17 ربیع الاول 1262 ہجری کو برطانوی حکومت اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین طے پایا. 



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے