حبہ خاتون مکمل داستان | Habba Khatoon history in urdu | بلبلِ کشمیر

 حبہ خاتون (1541ء - 1604ء)

حبہ خاتون کا اصل نام زون تھا ۔ زون کشمیری زبان میں چاند کو کہتے ہیں ۔ وہ وادی کشمیر کے قصبہ پانپور کے موضع ژند ہار یا چندن ہار میں 1541ء کو پیدا ہوئی ۔ اس کے والد کا نام عبدی راتھر تھا جن کا پیشہ زمینداری تھا۔ زون نے ایک مذہبی پیشوا خواجہ محمد مسعود سے فارسی زبان سیکھی اور دینی تعلیمات حاصل کیں ۔ چھوٹی سی عمر میں حبہ خاتون کی شادی عزیز لون نامی ایک نوجوان سے کر دی گئی ۔ جو خشک مزاج اور علم سے بے بہرہ تھا۔

حبہ خاتون مکمل داستان | Habba Khatoon history in urdu | بلبلِ کشمیر
Habba Khatoon history 


شاعرانہ انداز اور سسرال کا ردعمل 

 زون کو قدرت نے طبع موزوں عطا فرمائی تھی ۔ وہ بات بات پر فقرے باندھتی اور شعر کہتی ۔ اسے مطالعہ کا بھی شوق تھا۔ اس کا سسرالی گھرانہ بے ذوق اور گنوار تھا ۔ وہ زون کے شعری ذوق کو سمجھنے یا اس کی حوصلہ افزائی کرنے سے قاصر تھے۔ بیت ، گیت اور شعر و نغمہ ان کے سامنے ایسا ہی تھا جیسے” بھینس کے آگے بین بجانا“. زون عالم تنہائی میں سوچ و فکر کرتی اور جب اپنی سہیلیوں یا ہم جولیوں سے ملتی تو انہیں اپنے گیت اور اشعار سناتی ۔ اس کی سہیلیوں نے اس کے شاعرانہ مزاج کی خوب آؤ بھگت کی اور اس کی سخن گوئی کا شہرہ عام ہوا. 

سسرال کا ظلم و ستم 

یہ سب کچھ زون کے تنگ نظر اور بے ذوق خاوند کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ اس نے زون کو مارنا پیٹنا اور اس پر بے جا پابندیاں لگانا شروع کر دیں ۔ خاوند کے گھر والے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ اس گھر میں زون کا غمخوار کوئی نہ تھا ۔ زون بھی اپنے مزاج کی پکی اور عزم و ہمت کا کوہِ گراں تھی ۔ گھر والوں کی مخالفت اور سختیاں اس کے لیے تازیانہ بن گئیں ۔ فطرت نے اس دھان پان سی لڑکی کے دل میں درد، سوز و گداز، موسیقیت اور نغمگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہ سیلاب بلا خیز کون روک سکتا تھا ۔ وہ اپنے جذبات و احساسات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتی لیکن بے سود۔ جب یہ بند ٹوٹ پڑتا تو دیوانہ وار اس کی زبان سے گیت یوں پھوٹ پھوٹ کر نکلتے جیسے سرسبز و شاداب پہاڑوں کی چوٹیوں سے چشمے ابل رہے ہوں۔ زون کے سوز و گداز سے لبریز گیتوں کی خوشبو دور دور تک پھیل گئی ۔ زون کی یہ شہرت اس کے سسرال والوں کے لیے سخت گراں گزرتی. وہ اسے طعنے دیتے اور اسے طرح طرح سے تکلیفیں پہنچاتے ۔ وقت گزرتا رہا ۔ زون کھیتوں میں ہوتی یا گھر کی چھت پر یا سہیلیوں کے ساتھ اس کا دل ہر وقت گیتوں اور اشعار کی تخلیق میں مصروف کار رہتا ۔ 


شہزادہ یوسف شاہ چک سے شادی 

تواریخ میں لکھا ہے کہ ایک روز زون کھیتوں میں کام کر رہی تھی اور ترنم سے گا رہی تھی۔

Habba Khatoon kashmiri poetry in urdu


ترجمہ: سسرال والوں سے میری نہیں بنی، میکے والو میرے لیے کوئی صورت نکالو۔ میرا گھڑا ٹوٹ گیا ہے، مجھے نیا گھڑا لا دو میکے والو. 

اتنے میں شہزادہ یوسف شاہ شکار کھیلتا ہے ان کھیتوں سے گزر رہا تھا۔ یہ سریلی اور پُرسوز آواز اس کے کانوں میں پڑی ۔ وہ یہ گیت سن کر حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے معلوم کیا کہ یہ عورت کون ہے اور کس گھر کی رہنے والی ہے۔ جب اسے بتایا گیا تو اس نے زون کے خاوند عزیز لون کو شاہی دربار میں بلا کر اس سے حقیقت حال معلوم کی تو شہزادے نے اسے مشورہ دیا کہ وہ کچھ رقم لے لے اور زون کو طلاق دے کر اپنی حقِ زوجیت سے علیحدہ کر دے۔ خاوند اس بات پر آمادہ ہو گیا۔ یوسف شاہ چک نے زون کو شادی کا پیغام بھیجا اور اسے بیاہ کر شاہی محلات میں لے آیا۔ یوں یہ مصائب و آرام کی ماری دهقان زادی زون سے حبہ خاتون ( محبت کے لائق عورت ) بن گئی ۔ یوسف شاہ چک بھی شہزادگی سے راجگی کے منصب پر فائز ہوا۔ یوسف شاہ چک شعیہ مکتب فکر سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ شعر و ادب کا دلدادہ اور موسیقی کا بے حد شائق تھا۔ یوسف شاہ چک کی صحبت نے حبہ خاتون کے فکر و فن کو چار چاند لگا دیئے۔


یوسف شاہ چک کی گرفتاری کے بعد 

حبہ خاتون شاہی دربار میں نہایت شان و شوکت اور محبت و راحت کے ایام گزارنے لگی ۔ زمانے نے کروٹ بدلی اور مغل شہنشاہ اکبر نے کشمیر کی آزادی و خودمختاری پر شب خون مار کر اسے 1586ء میں اپنے قبضے میں لے لیا۔ یوسف شاہ چک کو گرفتار کر کے اکبر کے دربار میں پیش کیا گیا۔ اکبر نے اسے آگرہ کے قلعے میں پابند سلاسل کر دیا۔ حبہ خاتون کے لیے دنیا اندھیر ہو گئی ۔ وہ نئے حاکموں کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے سرینگر کے مضافات میں” پانتہ چھوک“ کی طرف نکل گی ۔ وہاں اس نے ایک جھونپڑی اور ایک مسجد بنائی اور خاوند کے ہجر فراق میں درد انگیز نغمے گانے لگی ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کشمیری ادب میں” بلبلِ کشمیر“ کہا جا تا ہے۔ اس کے درد بھرے نغمے سن کر جنگل کے پرندے اس کے آس پاس جمع ہو جاتے۔ وہ کہتی ہے. 

Habba Khatoon kashmiri poetry in urdu


وفات اور زندگی کا آخری حصہ 

کشمیر پر مغلوں کے قبضے سے جہاں سلطنت کشمیر کا چراغ گل ہو گیا۔ وہاں حبہ خاتون کے ارمانوں کی دنیا بھی اجڑ گئی ۔ وہ وادی کشمیر کے شمال میں 17 برس تک جنگلوں اور بیابانوں میں دیوانگی کے عالم میں سرگرداں رہی۔ اس نے اس دور میں جو بول، نغمے اور غزلیں لکھیں ان میں بے تاب آرزؤں ، نا تمام حسرتوں ،ان دیکھی تمناؤں اور دہکتی یادوں کی آگ بھری ہوئی ہے۔ حبہ خاتون نے زندگی کے آخری ایام ” پانتہ چھوک“ قصبے میں گزارے ۔ یہ عظیم ہستی 1604ء  غم و آلام کے سارے بوجھ اتار کر اس دنیا سے رخصت ہوئی ۔ اسے اسی قصبے میں دفن کیا گیا۔ حبہ خاتون کا کلام سرینگر سے شائع ہو چکا ہے ۔


کشمیری علم و ادب میں حبہ خاتون کا مقام 

کشمیری زبان و ادب کی تاریخ میں حبہ خاتون کو نہایت بلند پایہ مقام حاصل ہے۔ اس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے فارسی طرز پر کشمیری غزل لکھیں ۔ یہ کشمیری زبان میں غزل گوئی کا پہلا سنگ میل تھا۔ اس لیے حبہ خاتون کو کشمیری زبان کی پہلی غزل گو شاعرہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے کشمیری زبان میں فارسی موسیقیت کا حسین امتزاج پیدا کیا۔ اس کے کلام میں جذبات نگاری، واقعیت ، بے ساختگی ، درد اور سوز و گداز ہے۔


محمد عبداللہ قریشی حبہ خاتون کے کلام کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

اس کے ابتدائی اشعار دیہاتی سادگی کا نمونہ ہیں جن میں شوہر کی بے رخی اور اپنی کلفت کا ذکر ہے۔ اس دور کی شاعری کو دراصل زندگی کا نوحہ اور شباب کی کہانی کہا جا سکتا ہے ۔ بعد کے اشعار میں دردات قلب اور جذبات نگاری کے ساتھ ساتھ خیالات کی بلند پرواز پائی جاتی ہے اور استعارات کی کثرت سے کلام کی پختگی کا پتہ چلتا ہے۔ آخری دور کے اشعار میں دنیا کی بے ثباتی اور تصوف کے باریک نکات کا اظہار ہے۔ زبان خالص کشمیری اور با محاورہ ہے۔ فارسی بحریں ہیں ۔ کلام میں درد کی چاشنی اور سوز و گداز کی لذت موجود ہے۔ حبہ خاتون سے پہلے کشمیری شاعری سنسکرت شاعری کی طرز پر تھی جسے شروک یا اشلوک کہتے تھے۔ حبہ خاتون نے کشمیری شاعری کو عربی ، فارسی کے زیر اثر لا کر اس میں ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ اس کی یہ نئی طرز و ایجاد کچھ ایسی مقبول ہو گئی ہے کہ آج تک کشمیری شاعر اس کی تقلید کر رہے ہیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے