معاہدہ کراچی 1949 ، جب گلگت کو کشمیر سے جدا کر پاکستان کے حوالے کیا | Karachi agreement in urdu

 معاہدہ کراچی (28اپریل 1949ء)

28 اپریل 1949 کو وزارت امور کشمیر حکومت پاکستان حکومت آزاد جموں کشمیر اور مسلم کانفرنس کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جیسے معاہدہ کراچی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس معاہدے کی رو سے حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان تقسیم کار کی تفصیلات طے کی گئیں ۔ اس معاہدے کی ایک شق کے مطابق ریاست جموں کشمیر کے علاقہ جات گلگت، بلتستان کے تمام معاملات عارضی طور پر حکومت پاکستان کے مقرر کردہ پولیٹیکل ایجنٹ کی وساطت سے حکومت پاکستان کو منتقل کر دیئے گئے۔

معاہدہ کراچی 1949 ، تاریخ گلگت بلتستان ، Karachi agreement 1949
Karachi agreement 1949 


28 ہزار مربع میل پر مشتمل ریاست جموں کشمیر کا یہ علاقہ اب تک حکومت پاکستان کے کنٹرول میں ہے حالانکہ یہ علاقے تاریخی ، ثقافتی اور آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہیں ۔ پاکستان کے کسی بھی آئین میں انہیں پاکستان کا حصہ ظاہر نہیں کیا گیا ۔


معاہدہ کراچی کے اہم نکات حسب ذیل ہیں۔


1 حکومت پاکستان کے دائرہ اختیار کے اندر معاملات:

  • دفاع. 
  • آزادکشمیر کی خارجہ پالیسی. 
  • اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہند و پاک (UNCIP) کے ساتھ مذاکرات. 
  • پاکستان اور بیرونی ممالک میں مسئلہ کشمیر کی تشہیر کے معاملات. 
  • رائے شماری کے سلسلے میں تشہیر میں باہمی رابطہ. 
  • کشمیر کے بارے میں پاکستان کے اندر مختلف اقدامات، جیسے خوراک کی فراہمی ، سول سپلائی، ٹرانسپورٹ ، مہاجرین کے کیمپوں کا قیام اور طبی امداد وغیرہ ۔
  • گلگت اور لداخ ( بلتستان ) کے جملہ انتظامات کا کنٹرول. 



2 آزادکشمیر حکومت کے زیر اختیار معاملات :۔

  • آزادکشمیر کے علاقے کی انتظامیہ کے متعلق پالیسی. 
  • آزادکشمیر علاقے کی انتظامی کی نگرانی. 
  • آزادکشمیر حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی کی تشہیر. 
  • عزت مآب وزیر بے محکمہ ( حکومت پاکستان ) کو اقوام متحدہ کے کمیشن (UNCIP) سے مذاکرات کے بارے میں مشورہ ۔
  • آزادکشمیر کے علاقے میں اقتصادی وسائل اور ترقی کی منصوبہ بندی۔


3 مسلم کانفرنس کے زیر اختیار معاملات :۔

  • علاقہ آزاد کشمیر میں رائے شماری کے بارے میں تشہیر. 
  • ریاست کے ہندوستانی مقبوضہ علاقے میں مسلح کارروائیاں اور تشہیر. 
  • مقبوضہ کشمیر اور آزادکشمیر میں سیاسی سرگرمیوں کو منظم کرنا. 
  • رائے شماری کے بارے میں ابتدائی انتظامات. 
  • رائے شماری کے انعقاد کو منظم کرنا. 
  • پاکستان کے اندر آباد کشمیری مہاجرین میں سیاسی سرگرمیوں کی تشہیر. 
  • عزتِ مآب وزیر بے محکمہ ( حکومت پاکستان ) کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان و ہندوستان ( UNCIP ) سے مذاکرات کے بارے میں مشاورت مہیا کرنا. 


اس معاہدے پر حکومت پاکستان کے وزیر بے محکمہ (انچارج امور کشمیر ) مشتاق احمد گورمانی ، چوہدری غلام عباس سپریم ہیڈ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے اختلافی نوٹ لکھ کر صرف مسلم کانفرنس سے متعلق امور پر اتفاق کیا۔ صدر آزاد کشمیر سردار محمد ابراہیم خان معاہدے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے دستخط کیے بغیر مسودہ وزارتِ امور کشمیر کو واپس بھیج دیا۔ وزارت کے کسی اہلکار نے سردار محمد ابراہیم کی طرف سے اس پر جعلی دستخط ثبت کر دیئے ۔ صدر آزاد کشمیر اور چوہدری غلام عباس نے اقتدار ، مراعات، وظیفہ چھن جانے یا کسی اور خوف سے چپ سادھے رکھی اور معاہدے کی حقیقت کو کشمیری عوام پر آشکار نہ کیا۔ یوں یہ معاہدہ کشمیریوں پر جبری مسلط کر دیا. 


معاہدہ کراچی کشمیریوں کے لیے غلامی کی ایک بدترین دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے ریاست کا ایک بڑا حصہ ریاست سے کاٹ کر پاکستان نے براہ راست اپنے کنٹرول میں لےلیا۔ یہاں کے لاکھوں( گلگتی، بلتی) کشمیریوں کو پولیٹیکل ایجنٹ اور FCR جیسے ظالمانہ و فرسودہ نظام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ عوام کے بنیادی حقوق غصب کر لیے گئے تعلیم، علاج معالجہ، مواصلات اور تحریر و تقریر کے حقوق سلب کر لیے گئے۔


اس معاہدے کی رو سے ریاست کے 32 ہزار مربع میل آزاد علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے پاکستان نے عملی طور پر ریاست کی تقسیم میں پہل کی ۔ یہاں مسلکی فرقہ واریت اور انتشار کو فروغ دیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں ، عوام الناس اور گلگت بلتستان کے باشعور حلقے اس امر کا مطالبہ کرتے چلے آئے ہیں کہ پاکستان ریاست جموں کشمیر کے ان علاقوں سے اپنا کنٹرول ختم کرے اور انہیں آزادکشمیر کے ساتھ ملنے کا موقع فراہم کرے تاکہ یہاں کے لوگ قومی دھارے میں شامل ہو کر اپنے وطن عزیز کی وحدت اور آزادی کے لیے جدوجہد کر سکیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے