مقبول بٹ شہید (1938 - 1984) کون تھے پیدائش سے پھانسی تک | Biography

محمد مقبول بٹ شہید   

محمد مقبول بٹ شہید بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کی تحصیل ہندواڑہ کے ایک گاوں تریگام میں 11 فروری 1938 کو پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام غلام قادر بٹ تھا. جو محنت پیشہ آدمی تھے ۔ مقبول بٹ نے ابتدائی تعلیم گاوں کے پرائمری سکول سے حاصل کی۔ بی اے سینٹ جوزف کالج بارہ مولا سے کیا سکول اور کالج کے زمانے میں مقبول بٹ تحریکی و سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ 
مقبول بٹ شہید کون تھے پیدائش سے پھانسی تک 1938 سے 1984
Muhammad Maqbool Butt 


اس نوجوان کی انہیں سرگرمیوں کو دیکھ کر کالج کے عیسائی پرنسپل نے پیشین گوئی کی تھی کہ یہ نوجوان کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دے گا یا پھر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ مقبول بٹ نے جب بی اے کا امتحان دیا تو اس وقت وادی کشمیر شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے سبب شدید ہنگاموں کی لپیٹ میں تھی۔

جب جنگ بندی لائن عبور کر کے آزاد کشمیر آے 

 چنانچہ بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ 1958 کو اپنے چاچا عبد العزیز کے ساتھ جنگ بندی لائن عبور کر کے آزادکشمیر میں داخل ہو گئے۔ پاکستان کے سرحدی محافظوں نے انہیں پوچھ گچھ کے لیے قلعہ مظفرآباد میں نظر بند کر دیا۔ رہائی کے بعد مقبول بٹ پشاور میں سکونت پذیر ہوئے جہاں محبت خان نامی ایک کشمیری کی کاوش سے انہیں پشاور یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ مل گیا تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ پشاور سے شائع ہونے والے ایک اخبار میں بھی کام کرتے رہے۔ انہوں نے ایک ہفتہ وار رسالہ شروع کیا. لیکن اسے مالی مجبوریوں کے سبب جاری نہ رکھ سکے ۔ آپ نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور ایم اے صحافت کی ڈگریاں حاصل کیں ۔


شادی 

1961ء میں ان کی شادی راہ بیگم سے ہوئی ۔ جن سے دو بیٹے جاوید مقبول اور شوکت مقبول پیدا ہوئے ۔ مقبول بٹ نے کے ایچ خورشید کے دور صدارت میں 1960ء میں بی ڈی سسٹم کے تحت ہونے والے آزادکشمیر کے پہلے بلدیاتی انتخابات میں بطور امیداوار حصہ لیا اور کامیاب ہوئے ۔ 1965ء میں انہوں نے ایک سکول معلمہ ذاکرہ بیگم سے شادی کی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی۔

محاذ رائے شماری کا قیام 

1965ء میں مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں نے محاذ رائے شماری کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی ۔ اپریل 1965 کو سیالکوٹ کے مقام پر محاذ کا پہلا کنونشن منعقد ہوا جس میں مقبول بٹ محاذ کے پبلسٹی سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ کنونشن سے فارغ ہونے کے بعد محاذ کے مرکزی عہدے داروں نے سیالکوٹ اور جموں کے مابین سوچیت گڑھ کے بارڈر پر جا کر مقبوضہ کشمیر کی مٹی ہاتھ میں اٹھا کر حلف اٹھایا کہ وہ اس وطن کی عزت و آزادی کے لئے جان کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔


نیشنل لبریشن فرنٹ (NLF) کا قیام 

مقبول بٹ اور ان کے ایک دوست امان اللہ خان نے 13 اگست 1965 کو محاذ کے ایک خفیہ عسکری ونگ NLF کی بنیاد رکھی ۔ جس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ کشمیری نوجوانوں کو تربیت دے کر بھارت کی قابض افواج کے خلاف لڑنے کے لئے تیار کیا جائے ۔ مقبول بٹ نے NLF کے پلیٹ فارم سے کشمیر کی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کے نظریے اور راستے کا تعین کیا۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ آزادی مانگنے سے نہیں ملتی، بلکہ غاصب قوتوں سے اپنی آزادی چھین کر لینا پڑتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک کشمیری ہتھیار اٹھا کر قابض افواج کے خلاف نہیں لڑیں گے ، اس وقت تک کشمیر کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

لائن آف کنٹرول توڑ کر بھارت میں جب داخل ہوئے 

 چنانچہ بھارت کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کے لئے وہ جون 1966ء کو اپنے چند ساتھیوں میجر امان اللہ خان ،صو بیدار کالا خان اور اورنگزیب شہید (جن کا تعلق گلگت سے تھا ) کے ہمراہ جنگ بندی لائن عبور کر کے وادی کشمیر میں داخل ہو گئے.

جہاں تین ماہ تک وہ خفیہ طور پر تنظیم سازی کرتے رہے اور نوجوانوں کو وطن کی آزادی کے لئے عملی طور پر میدان میں اترنے کی دعوت دیتے رہے۔

سرینگر جیل سے جب فرار ہوے

بالآخر ایک معرکے میں وہ اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار ہو گئے اور انہیں سنٹرل جیل سرینگر میں قید کر دیا گیا۔ ان کا ایک ساتھی اورنگزیب اس معرکے میں شہید ہو گیا۔ مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں پر بغاوت پھیلانے کے جرم میں مقدمہ قائم کیا گیا۔ کشمیر ہائی کورٹ کے ایک ہندو جج نے سزائے موت سنائی۔ مقبول بٹ نے سزائے موت سنانے والے جج کو عدالت کے کٹہرے میں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔

 جج صاحب! 
وہ رسی ابھی تیار نہیں ہوئی جو مقبول بٹ کے لئے پھانسی کا پھندہ بن سکے۔

مقبول بٹ شہید سری نگر سنٹرل جیل میں سزائے موت کا فیصلہ سننے سے پہلے ہی جیل سے فرار کے منصوبے پر غور و فکر کر رہے تھے۔ لیکن سزائے موت سننے کے بعد انہوں نے فرار کے منصوبے کوحتمی شکل دینے کا فیصلہ کرلیا ۔

چنانچہ انھوں نے 9 دسمبر 1968ء میں اپنے دو ساتھیوں میر احمد اور چوہدری یسین کے ہمراہ سرینگر جیل میں سرنگ لگا کر راہ فرار اختیار کی اور کئی روز تک برف پوش پہاڑوں کو عبور کرنے کے بعد قاضی ناگ چھم کے راستے آزاد کشمیر پاکستان میں داخل ہو گئے ۔

جب فرار ہو کر آزاد کشمیر پونچھے 

 جہاں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے انہیں گرفتار کر لیا اور بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر مظفرآباد کے قلعہ میں قید کر دیا۔ اس قلعہ میں مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں کو بہت اذیتیں دی گئی لیکن راه آزادی کے ان متوالوں کے حوصلے پست رہے۔ کچھ عرصہ تشدد سے گزرنے کے بعد انہیں رہائی ملی تو پھر تحریک آزادی کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔


گنگا طیارہ اغوا کیس 

 1969ء میں مقبول بٹ کو محاذ رائے شماری کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔ 31 جنوری 1971 کو دو کشمیری نوجوانوں اشرف قریشی اور باشم قریشی نے بھارت کا گنگا طیار اغوا کیا اور لاہور لے آئے گنگا کے اغواء سے مقبول بٹ اور ان کے سیکڑوں ساتھیوں کو پاکستان کی مختلف جیلوں اور عقوبت خانوں میں جبر و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن ان حریت پسندوں کے حوصلے پست نہ ہوے. 

مئی 1973ء میں گنگا کے مقدمہ سے رہائی کے بعد مقبول بٹ پھر تحریک آزادی کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔ انہوں نے 1975ء میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے لیے ایبٹ آباد اور مری کے حلقوں سے دو نشستوں پر انتخاب لڑا لیکن کامیابی حاصل نہ کر سکے البتہ ایکشن مہم میں انہوں نے اپنے وطن کی آزادی کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔

دوسری مرتبہ پھر جب جنگ بندی لائن عبور کی 

 1976ء میں مقبول بٹ اپنے دو نوجوان ساتھیوں ریاض بٹ اور حمید ڈار کے ہمراہ ایک بار پھر جنگ بندی لائن توڑتے ہوئے وادی کشمیر میں داخل ہو گئے جہاں ایک معرکے میں انہیں گرفتارکرلیا گیا۔ گرفتاری کے کچھ عرصہ بعد انہیں تہاڑ جیل دہلی میں منتقل کر دیا گیا جہاں بھارتی سپریم کورٹ نے ان کی سابقہ سزائے موت بھال کر دی. 

ریوندرہ مہاترے اغوا کیس 

6 فروری 1984 کو لندن میں بھارتی سفارتخانے کے ایک اہلکار ریوندرہ مہاترے کو کشمیر لبریشن فرنٹ نامی آرمی کی ایک خفیہ تنظیم نے اغوا کر لیا. اغوا کاروں نے 24 گھنٹوں کے اندر اندر مقبول بٹ ، حمید بٹ ، ریاض ڈار اور دیگر کشمیری حریت پسندوں کو رہا کر نے کا مطالبہ کیا لیکن جب بھارتی حکومت نے ان کا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو اغوا کاروں نے 54 گھنے گزرنے کے بعد ریوندرہ مہاترے کو قتل کر دیا.

11 فروری جب پھانسی دی گئی

ریوندرہ مہاترے کے قتل کے بعد بھارتی حکومت نے مقبول بٹ کو پھانسی دینے کا اعلان کر دیا. مقبول بٹ کو سزائے موت سے بچانے کے لیے کشمیریوں نے بہت کوششیں کیں لیکن بھارتی حکومت اپنے فیصلے پر کاربند ری چنانچہ 11 فروری 1984 کو اتوار کے روز تہاڑ جیل میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔ 

پھانسی کے پھندے پر لٹکتے ہوئے مقبول بٹ کے آخری الفاظ تھے...

میرے وطن تو ضرور آزاد ہو گا۔۔۔۔

مقبول بٹ کی لاش ان کے ورثاء کے حوالے کرنے سے بھارتی حکومت نے انکارکردیا۔ چنانچہ جیل کے مسلمان قیدیوں نے انہیں وہیں جیل کے احاطے میں دفن کر دیا. 

مقبول بٹ کا مقام 

کشمیر کی جدوجہد آزادی میں مقبول بٹ شہید کو سب سے اعلی و ارفع مقام حاصل ہے ۔ راه آزادی میں مقبول بٹ کی قربانی نے کشمیریوں کو نیا عزم و حوصلہ عطا کیا۔ بلاشبہ کشمیر کی نئی نسل میں مقبول بٹ کو جو عزت و اہمیت حاصل ہے وہ کسی دوسرے شخص کے حصے میں نہیں آئی نئی نسل مقبول بٹ کو جدوجہد آزادی کا ہیرو مانتی ہے ۔


 

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. پاکستان نے جو کیا کشمیری قوم یاد رکھیں گئ یہ نہ کیا ہوتا تو آج کشمیر پاکستان ھوں تا

    جواب دیںحذف کریں