شیخ نورالدین ولی ( نندہ رشی) | Sheikh Nooruddin Wali (Nanda Rishi) | کشمیر کے عظیم مبلغ اسلام

شیخ نورالدین ولی 

شیخ نور الدین رشی جنھیں کشمیر کے لوگ نندہ رشی اور نور الدین ولی کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ 6 جمادی الاول 779ھ کو کیموہ  گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کو کشمیریوں کے Patron Saint کا درجہ حاصل ہے۔ نندہ رشی اپنے زمانے کے معروف صوفی بزرگ تھے اس لیے انہیں شیخ العالم کے خطاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے کشمیر میں تبلیغ اسلام کے سلسلے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ آپ کا شمار کشمیری زبان کے ابتدائی شاعروں میں ہوتا ہے ۔ آپ نے شاعری کے ذریعے اپنی تعلیمات کو عام کیا.

شیخ نورالدین ولی ( نندہ رشی) | Sheikh Nooruddin Wali (Nanda Rishi) | کشمیر کے عظیم مبلغ اسلام
Shaikh Nooruddin Wali


 روایت ہے کہ نندہ رشی کے والد شیخ سالار الدین اور والدہ سدرہ ماں ایک صوفی بزرگ یاسمن رشی کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک وہاں مشہور مجذوبہ للّہ عارفہ بھی آ گئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت پھول تھا۔ یاسمن رشی نے للّہ عارفہ سے یہ پھول لے کر سدرہ ماں کو دیا اور فرمایا ”اسے سونگھ لو تمہارے بطن سے ایک برگزیدہ بچہ پیدا ہوگا “۔ اس برگزیدہ بچے کی پیدائش کی خوشخبری سید علی ہمدانی نے بھی دی ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ سدرہ ماں کے بطن سے جب نندہ رشی پیدا ہوئے تو وہ ماں کا دودھ نہیں پیتے تھے ۔ للّہ عارفہ کو پتا چلا تو وہ  وہاں آ گئی اور بچے کو سینے سے لگا کر کہنے لگی” پی دودھ پی ، پیدا ہونے میں شرم محسوس نہیں کی اب دودھ پینے سے کیوں شرماتا ہے“. چنانچہ آپ نے للّہ عارفہ کا دودھ پیا جس سے آپ کی پیدائشی ولایت کا ثبوت ملتا ہے۔

شیخ کی باقاعدہ تعلیم و تربیت نہ ہو سکی لیکن آپ کو خدائے بزرگ و برتر نے اپنے خصوصی فضل سے علم لدنی عطا کیا۔ روایت ہے کہ آپ کی ماں نے بیٹے کو ایک جولاہے کے پاس کام سیکھنے کے لیے بھیجا لیکن کچھ دنوں بعد جولاہے نے آپ کی ماں سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا بیٹا مجھ سے کچھ سیکھنے کے بجائے مجھے ایمانداری کا سبق سکھاتا ہے اور کہتا ہے” کیا جولاہے کیا دھنئے، اگر من کا میل صاف کریں تو ان کے اندر سے لوگوں کی ڈھیروں روئی اور منوں دھاگے نکلیں“. 

آپ جب سن بلوغت کو پہنچے تو آپ کی شادی کر دی گئی ۔ آپ کی بیوی زی دیدی کے بطن سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی. بچوں کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں اچانک تبدیلی آگئی اور آپ گھر بار چھوڑ کر ایک غار میں گوشہء نشین ہو گئے ۔ بارہ برس تک گھاس اور درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے رہے ۔ ترک دنیا کے بعد آپ واپس عوام میں آئے اور لوگوں کو نیکی ، حق گوئی ، پرہیزگاری ، ایمانداری ، خدمت خلق اور اعلی اخلاق کی تعلیم دینے لگے ۔ آپ کی ساری زندگی عبادت و ریاضت اور عوامی خدمت میں گزری۔ آپ کا قول ہے” کرتل پھڑم تہ گرمس درآتی“” میں نے تلوار توڑ کر اس سے درانتی بنائی ہے“۔

آپ نے اصلاح معاشرہ کو بھی موضوع سخن بنایا ہے۔ آپ کے ایک شعر کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔” خیرات کا کھانا ملا تو درکنار ، اتفاق سے ملا کی مرغی نے کھا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تن آسان ہو گئی اور لیٹے لیٹے بانگ دینے گی“۔

آپ کا مزار چرار شریف میں مرجع خلائق ہے۔ چند برس پہلے ایک دہشت گرد میجر مست گل اور اس کے شر پسند ساتھیوں نے اس عظیم درگاہ کو آگ لگا کر جلا دیا تھا جسے اب کشمیر گورنمنٹ نے دوبارہ تعمیر کر دیا ہے۔ آپ کا سوختہ مزار 6 سو سالہ فن چوب کاری کا عظیم شاہکار تھا ۔ شیخ العالم کے کلام اور ان کی تعلیمات و روایات پر محققین نے گراں قدر کام کیا ہے۔” رشی نامہ ‘‘ آپ کی صوفیانہ تعلیمات پر مبنی منظوم تصنیف ہے۔ آپ چرار شریف میں دفن ہیں. آپ نے 842ھ میں وفات پائی. 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے