شملہ معاہدہ 2 جولائی 1972 | 1971 کی جنگ کے بعد | Simla Agreement in Urdu | Jammu kashmir info

شملہ معاہدہ 2 جولائی 1972ء

1971 کی پاک بھارت جنگ میں سقوط ڈھاکہ کے نتیجے میں 93 ہزار فوجیوں نے سپہ سالار اعلی جنرل نیازی کی قیادت میں ہتھیار ڈال دیئے جنہیں جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے ساڑھے پانچ ہزار مربع میل علاقے پر بھارتی فوج نے قبضہ کر لیا. ان جنگی قیدیوں کی واپسی مقبوضہ علاقے کی واپسی اور باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے شملہ کے مقام پر 28 جون 1972ء سے 2 جولائی 1972 تک سربراہی ملاقاتیں ہوئیں ، گفت و شنید کے بعد 2 جولائی 1972 کو بھارت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی اور پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کے مابین 6 شقوں پر مشتمل ایک معاہدہ طے پایا جسے شملہ معاہدہ کہا جاتا ہے ۔

شملہ معاہدہ 2 جولائی 1972 | 1971 کی جنگ کے بعد | Simla Agreement in Urdu | Jammu kashmir info


 اس معاہدے نے تحریک آزادی کشمیر کو زبردست نقصان پہنچایا۔ معاہدہ تاشقند کے بعد کشمیریوں نے اپنی جدوجہد آزادی کو منظم کرنے کی جو کوششیں بروئے کار لائی تھیں وہ ایک بار پھر خاک میں ملا دی گئیں ۔ پاکستان نے جنگی قیدیوں کے بدلے ایک کروڑ کشمیریوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔ نا اہل اور نالائق بیورو کریسی اور بزدل جرنیلوں نے تاوان جنگ کے طور کشمیر یوں کو ہندوستان کے حوالے کر دیا۔ بقول خان عبدالقیوم خان’’ معاہدہ شملہ کے ذریعے مسٹر بھٹو نے کشمیر کے مسئلے کو تاشقند کے برف خانے سے نکال کر شملہ کے عالی شان مقبرے میں دفن کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے غیور اور حریت پسند عوام نے روز اول سے ہی اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا۔


شملہ معاہدے کے حسب ذیل مضمرات نے تحریک آزادی کشمیر پر منفی اثرات مرتب کئے ۔


یہ معاہدہ کشمیر کے اصل وارثوں یعنی (گلگت بلتستان والوں کو لداخ والوں کو جموں والوں کو ) کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کا فریق ہی نہیں سمجھتا۔


یہ معاہدہ کشمیریوں کے مسلمہ حق خودارادیت کوتسلیم نہیں کرتا بلکہ مسئلہ کشمیر کو دو ملکوں کے مابین سرحدی جھگڑا سمجھتا ہے ۔


یہ معاہدہ کشمیریوں کو عالمی رائے عامہ کی حمایت سے محروم کر دیتا ہے کیونکہ عالمی رائے عامہ ایک مظلوم اور محکوم قوم کے حق آزادی کی حمایت تو کرتی ہے لیکن اسے دو ملکوں کے مابین علاقائی تنازعہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس لیے شملہ معاہدے کے بعد عالمی رائے عامہ نے چپ سادھ لی۔


اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں نے عہد کیا کہ کنٹرول لائن کے دونوں طرف اٹھنے والی تحریکوں کو ختم کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں شملہ معاہدے کے بعد آزادی پسندوں کی پکڑ دھکڑ اور تعذیب و تشدد کا سلسلہ بیک وقت شروع کیا گیا۔


پاکستان نے بھارت سے آئندہ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا جس سے کشمیریوں کو سخت مایوسی ہوئی ۔


اس معاہدے کی دفعہ 4 شق 2 کے تحت سیز فائر لائن ( عارضی جنگ بندی لائن ) کو کنٹرول لائن ( مستقل سرحد ) تسلیم کیا گیا۔ یہ الفاظ کشمیر پر بھارتی قبضے کو درست اور جائز تسلیم کرتے ہیں ۔


اس معاہدے کی رو سے تحریک آزادی کشمیر کے لیے پروپیگنڈہ بند کرنے کا فیصلہ ہوا چنانچہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے لیے تحریک آزادی کشمیر شجر ممنوعہ بن گئی ۔ ریڈیو آزاد کشمیر بھی خاموش کر دیا گیا۔


اس معاہدے کی رو سے پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا چنانچہ پاکستان نے اس معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ، غیر جانبدار تحریک، اسلامی کانفرنس یا کسی بین الاقوامی کانفرنس میں خود پیش نہ کیا. 



شملہ معاہدے کی آخری شق میں کہا گیا کہ جموں کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت مناسب وقت پر مذاکرات کریں گے. اس سے مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے باہمی مذاکرات کی نذر ہو گیا. 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے