معاہدہ الحاق ہندوستان 1947 | تاریخ کشمیر | Accession Treaty of India 1947

 معاهده الحاق ہندوستان (1947)

کشمیر میں قبائلی دستوں کے حملے سے خوف زدہ ہو کر مہاراجہ ہری سنگھ 26 ,25 اکتوبر کی درمیانی رات کو دارالحکومت سرینگر سے بھاگ کر جموں چلا گیا جہاں اس نے 26 اکتوبر 1947 کو بھارتی نمائندے دی پی مئین کے ہاتھ لارڈ ماؤنٹ بیٹن وائسرائے ہند کو ایک مفصل خط ارسال کیا جو حسبِ ذیل ہے۔

Accession Treaty of India 1947 Kashmir | معاہدہ الحاق ہندوستان1947
Accession Treaty of India 1947 Kashmir 


مائی ڈئیر ماؤنٹ بیٹن!

میں جناب والا کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ میری ریاست میں شدید ہنگامے برپا ہوگئے ہیں جن کے لئے مجھے فوری آپ کی مدد کی ضرورت ہے جیسا کہ جناب والا آگاہ ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر نے پاکستان یا ہندوستان کسی ایک سے بھی الحق نہیں کیا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے میری ریاست دونوں ہی ملکوں سے ملحق ہے اور دونوں ہی کے ساتھ اس کے سیاسی اور سماجی رشتے ہیں ۔ علاوہ ازیں میری ریاست کی سرحدیں روس اور چین سے بھی نظر انداز نہیں کرسکتیں۔ مجھے یہ فیصلہ کرنے کے لئے وقت درکار تھا کہ میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کروں یا پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھوں چنانچہ میں نے دونوں ملکوں سے جوں کا توں معاہدہ کی درخواست کی ہے، جسے پاکستان نے منظور کیا لیکن ہندوستان نے میری حکومت کے نمائندے سے مزید گفتگو کی ضرورت محسوس کی، جس کا مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر میں انتظار نہ کرسکا۔ بہرحال اس معاہدے کی رو سے حکومت پاکستان ریاست کے تار اور ڈاک کا انتظام کررہی ہے ۔ اگرچہ ہم پاکستان کے ساتھ معاہدہ کر چکے ہیں لیکن اس حکومت نے دباؤ کے تحت گلا گھونٹنا شروع کردیا ہے۔ خصوص اشیائے خوردونوش نمک اور پٹرول کی سپلائی بند کردیا ہے۔

 آفریدی سادہ لباس میں ملبوس سپاہی اور جدید اسلحہ سے لیس لوگوں کو ریاست میں ٹرکوں کے ذریعے داخلے کی اجازت دی گئی۔ جو آغاز میں پونچھ پہونچے ۔ پھر سیالکوٹ اور آخر میں ہزارہ سے ملحقہ علاقے راولاکوٹ  کی جانب سے گروہ در گروہ پہنچنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ محدودشمار کی ریاستی فوج کے سپاسی تتر بتر ہو گئے۔ وحشی تو قوتیں ، جو میری ریاست کے اندر داخل ہوگئی ہیں، میری ریاست کے دارالحکومت سرینگر کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہیں کہ پوری ریاست پر قبضہ کیا جا سکے. شمالی مغربی سرحد کے دور دراز علاقوں سے قبائلیوں کی خاصی تعداد ٹرکوں کے ذریعے آ رہی ہے۔ ان کے پاس جدید قسم کا اسلحہ ہوتا ہے۔

سب صوبہ سرحد اور حکومت پاکستان کے علم میں ہے ۔ میں نے متعدد اپیلیں کیں مگر شنوائی نہیں ہوئی۔

 پاکستان ریڈیو نے تو ایک کہانی بھی گھڑی ہے کہ کشمیر میں ایک عارضی حکومت قائم کر لی گئی ہے۔ موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ ہندوستان سے مدد طلب کروں ۔ لازمی طور پر یہ مدد مجھے اس وقت تک نہیں مل سکتی، جب تک میری ریاست ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ نہیں کر لیتی۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے اور اس خط کے ہمراہ الحاق کے کاغذات آپ کی منظوری کے لئے ارسال خدمت ہیں۔

میں جناب والا کو مطلع کر دینا چاہتا ہوں کہ میرا ارادہ ہے کہ فوری طور پر عارضی حکومت قائم کر دوں اور شخ عبداللہ سے کہوں کہ وہ میرے وزیراعظم کے ساتھ مل کر اس ہنگامی حالت میں فوری طور پر ذمہ داریاں سنبال لیں۔ اگر آپ میری ریاست کو بچانا چاہتے ہیں تو سرینگر میں فوری مدد درکار ہے۔ مسٹر میئن ساری صورت حال سے آگاہ ہیں۔ اگر مزید کسی استفسار کی ضرورت ہو تو وہ بیان کر سکتے ہیں ۔ یہ تحریر بہت جلدی میں لکھی گئی ہے۔ بصد احترام۔

آپ کا مخلص ہری سنگھ 



دی پی میئن یہ خط لے کر دہلی گیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن، پنڈت جواہرلال نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور شیخ محمد عبداللہ نے اس الحاق کے معاملے پر غور کیا اور باہمی اتفاق سے 27 اکتوبر کو جوابی خط لکھ کر دوباره دی پی میئن کے ہاتھ بھیجا جس میں لکھا تھا۔

"میری حکومت نے آپ کی ریاست کا الحاق ہندوستان سے منظور کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ تاہم میری حکومت چاہتی ہے کہ ریاست جموں کشمیر میں نظم ونسق کی بحالی اور ریاست سے حملہ آوروں کو نکال لینے کے بعد الحق کا فیصلہ عوام کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے گا۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس خط کے ساتھ ہی فوجیں سری نگر روانہ کر دیں ۔ 27 اکتوبر 1947 کو بری اور ہوائی فوج کی بھاری تعداد ریاست میں داخل ہوگئی۔ 



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے