معاہدہ گلگت 26 مارچ 1935ء گلگت کا علاقہ جو لیز پر دیا گیا | تاریخ گلگت بلتستان

 معاہدہ گلگت (26 مارچ 1935ء)


گلگت بلتستان کے علاقے صدیوں سے مملکت کشمیر کے زیر انتظام رہے ہیں ۔ 1586ء میں کشمیر پر مغلوں کے قبضے کے بعد اور پھر افغانوں کے عہد تسلط میں یہ علاقے راجواڑوں اور باج گزار ریاستوں میں بٹ گئے سکھوں کے عہد حکومت میں کمانڈر نتھے شاہ کی قیادت میں سکھ فوج نے 1842 میں گلگت پر قبضہ کر لیا۔

Treaty of Gilgit 1935


 1846ء کے معاہدہ امرتسر کی رو سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے مہاراجہ گلاب سنگھ کو ایک معاہدے کے تحت دریائے راوی اور دریائے سندھ کے مابین علاقہ جات کا اقتدار اعلی سونپ دیا۔ 


اس معاہدے میں دریائے  سندھ کے پار گلگت ، ہنز و نگر اور یاسین وغیرہ کے علاقے شامل نہیں تھے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ اور رنبیر سنگھ کے عہد میں ان علاقوں کو سلطنت کشمیر کے زیرانتظام لانے کے لیے پے در پے حملے ہوئے ۔ چنانچہ 1851 میں چلاس 1863 میں یاسین اور 1866ء میں داریل  وغیرہ کو فتح کرکے سلطنت کشمیر میں شامل کیا گیا۔


 دریائے سندھ کے شمال میں واقع ان علاقوں کو ایک انتظامی یونٹ کی شکل دے کر وزارت گلگت“ کا نام دیا گیا۔ اب سلطنت  کی سرحدیں وسطی ایشیاء تک جاپہنچیں۔



انیسویں صدی کے وسط میں جب روس نے توسیع پسندانہ پالیسی اختیار کی تو انگریز سرکار کوخطرہ لاحق ہوا کہیں زارِروس کشمیر کے اس شمالی دروازے کے راستے ہندوستان تک اپنا اثر و نفوز قائم نہ کر لے. چنانچہ اس متوقع خطرے سے نپٹنے کے لیے برطانوی سرکار نے کئی تدابیر اختیار کیں ۔ روس اور چین کے ساتھ ملحقہ ان علاقہ جات پر کڑی نگاہ رکھنے کے لیے برطانوی حکومت نے پہلے 1876ء میں اور بعدازاں 1889ء میں یہاں گلگت پولیٹیکل ایجنسی قائم کی۔ کرنل ڈیورنڈ اس ایجنسی کا پہلا پولیٹیکل ایجنٹ تعینات ہوا۔


 چین اور وسطی ایشیاء کی طرف مملکت کشمیر کے بڑھتے ہوئے اقتصادی و معاشرتی رشتوں کے تمام دروازے اس ایجنسی کے قائم ہوتے ہی بند ہو گئے ۔ اب انگریزی حکومت اس خط کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھنے کے منصوبے بنانے لگی ۔ پرتاپ سنگھ انگریز ی حکومت کی ان جارحانہ پالیسیوں سے سخت نالاں تھا۔ وہ ان توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنارہا لیکن اس کا جانشین مہاراجہ ہری سنگھ پہلوتہی کے باوجود بالآخر انگریز سرکار کے سامنے جھکنے پرمجبور ہو گیا۔


دراصل انگریز سرکار نے ریاست جموں کشمیر کے اندرونی معاملات میں اس حد تک اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیا کہ سیاسی و شعوری بیداری کے نام پر اندرون ریاست پے در پے پیدا ہونے والے واقعات کے نتیجے میں انگریزی حکومت مہاراجہ ہری سنگھ کو اپنے سامنے جھکانے میں کامیاب ہوئی اور بالآخر مہاراجہ ہری سنگھ کو 1935ء میں برٹش سرکار کی طرف سے گلگت کو اپنے کنٹرول میں لینے کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا۔


چنانچہ 26 مارچ 1935 کو مہاراجہ ہری سنگھ اور برطانوی ریزیڈنٹ کشمیر کرنل ایل ای لانگ کے مابین ایک معاہدہ تے پایا جس کی توثیق 3 اپریل 1935 کو وائسرائے ہند لارڈ ولینگٹن نے کی ۔ اس معاہدے کی رو سے دریائے سندھ کے پار گلگت اور اس کے ملحقہ 14,680 مربع میل پر مشتمل علاقے کا کنٹرول اور فوجی انتظام 60 برس کے لیے براہ راست برطانوی حکومت ہند کے سپرد ہوا ۔

معاہدہ گلگت 26 مارچ 1935ء 

متن معابده مابين برٹش گورنمنٹ و مهاراجه جموں کشمیر


دفعه اول : وائسرائے و گورنر جنرل کشور ہند کو اختیار ہے کہ اس معاہدے کو استحکام  دیے جانے کے بعد کسی بھی وقت وزارت صوبہ گلگت ریاست جموں کشمیر کے اس حصے کا ملکی و فوجی انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیں۔  جو دریائے سندھ کے پار اس داہنے کنارہ پر واقع ہے۔


دفعه دوم: یہ ثبوت اس امر واقع کے کہ ملک متذکرہ بالا ممالک مہاراجہ ہری سنگھ جموں کشمیر کی حدود کے اندر شامل ہے ۔ بموقع سالگرہ مہاراجہ و تقریب بیساکھی اور دیگر ایسی تقریبوں کے جن کے متعلق مہاراجہ اور گورنر جزل کشور ہند کے مابین اتفاق رائے ہو جائے ۔ افسران

انتظامی کا فرض ہوگا کہ ملک متذکرہ بالا میں ہرہائی نس کی غلامی سر کریں اور اعزازات مروجہ کی پوری تعمیل کرتے رہیں ۔ ریاست کا جھنڈا سرکاری صدر مقام ایجنسی پر ہمیشہ قائم رہے گا۔


دفعه سوم : عام حالت میں سرکار برطانیہ کی گورہ افواج یا ہندوستانی افواج وزارت صوبہ گلگت کے اندر سے نہیں گزریں گے۔ جو دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع ہے۔


دفعه چهارم: تمام حقوق متعلق معدنیات بحق ہرہائی نس مہاراجہ جموں کشمیر محفوظ ہیں. مگر معاہدہ ہذا کے بعد معدنیات کی تلاش یا معدنیات نکالنے کا کام موخر کیا جائے گا۔


دفعه پنجم: معاہدہ ہذا تاریخ استحکام سے ساٹھ سال تک نافذ رہے گا۔ اس معیاد کے ختم ہونے پر معاہدہ خود بخود ختم ہوجائے گا۔


26 مارچ 1935ء بمقام جموں اس معاہدے پر دستخط کئے گئے. 


.

مذکورہ معاہدے کے تحت برطانوی سرکار کو علاقہ گلگت کا نظام سنبھالنے ابھی صرف بارہ برس گزرے تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں برٹش راج کو بر صغیر سے اپنا بوریا بستر سمیٹنا پڑا.


 3 جون 1947 کی منصوبہ بندی کے تحت طے پایا کہ برطانیہ اپنا قبضہ ہندوستان سے ختم کر دے گا اور وہ تمام معاہدے جو برطانوی ہند کی شخصی ریاستوں سے طے ہوے ہیں خود بہ خود منسوخ ہو جائیں گے. 


چنانچہ اسی اصول کے تحت معاہدہ گلگت بھی منسوخ ہو گیا اور یہ طے پایا کہ وہ تمام علاقے جو برطانوی حکومت نے مہاراجہ کشمیر سے لیز پر لیے تھے یکم اگست کو حکومت کشمیر کو واپس کر دیے جائیں گے. 


مہاراجہ کشمیر کے حکم سے وزیراعظم کشمیر رام چند کاک نے 12 جولائی 1947 کو ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں وزارتِ گلگت کو صوبے کا درجہ دے کر برگیڈیر جنرنل سٹاف  گھنسارا سنگھ کو صوبے کا گورنر تعینات کیا گیا. 30 جولائی 1947 کو گھنسارا سنگھ نے گلگت پہنچ کر چارج سنبھال لیا. 


1935 میں گلگت کے جو علاقے برطانوی حکومت کو لیز پر دیے گئے تھے بالآخر 1 اگست 1947 کو عملی طور پر  ان علاقوں پر مہاراجہ. کی عمل داری قائم ہو گئی.



مختلف مصنف کی راے میں معاہدہ گلگت ایجنسی

 

ایم اے خان اپنی تصنیف کشمیر تاریخ کے آئینے میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ گلگت بلتستان سارا کا سارا انگریزوں کو دیا گیا تھا. ریاست کا سرحدی صوبہ جس میں گلگت بلتستان اور لداخ شامل ہیں 63454 مربع میل پر مشتمل ہے. جس میں سے گلگت ایجنسی ان علاقوں پر مشتمل ہے.


گلگت وزارت جس میں تحصیل گلگت و بونجی کا علاقہ شامل ہے. 

ہنزہ اور نگر کی ریاستیں 

چلاس کا ضلع

پونیال

یاسین

کوہ و غذر

 اشکومن


 اور گلگت کا 1480 مربع میل علاقہ انگریزوں کو پٹھے پر دیا گیا.


 اس کے لیے 1941 کی مردم شماری کی لسٹ دیکھی جا سکتی ہے. جبکہ اس میں نہ لداخ شامل تھا جس کا رقبہ 45762 مربع میل ہے اور جس میں بلتستان اور کارگل شامل ہیں . 


ایم اے خان مزید لکھتے ہیں اس سودے میں ساری گلگت ایجنسی بھی شامل نہیں جس کا رقبہ 14680 مربع میل ہے. اور نہ استور جس کا رقبہ 10632 مربع میل ہے.


 ممتاز ہاشمی اس بارے میں لکھتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے گلگت کے شمال اور شمال مغرب میں چلاس، گوپس، یاسین، اشکومن اور داریل و تانگر کے بالکل آخر میں سرحد کے ساتھ ساتھ پھیلی ہوئی پٹی کا صرف 1485 مربع میل علاقہ ساٹھ سالہ پٹے پر 1935 میں مہاراجہ سے لے لیا. 


 اس بارے میں شیخ عبداللہ لکھتے ہیں کہ ان تینوں علاقہ جات کے حکمران مہاراجہ کشمیر کے حلقہ بگوش تھے. اس کو باقاعدہ خراج ادا کرتے تھے اس صدی کی چوتھی دہائی میں مہاراجہ نے گلگت انگریزوں کو پٹے پر دیا جو اس پر اس لیے تسلط چاہتے تھے تاکہ برصغیر کو سودیت یونین کی کسی امکانی پیش قدمی سے بچائے رکھیں. اس وقت اور ان حالات میں سول ایڈمنسٹریشن گلگت میں بھی اس طرح تھی جس طرح ہنزہ اور سکردو میں تھی.


 کے ایچ خورشید اس بارے میں لکھتے ہیں کہ 1945 میں بعض سرحدی معاملات اور دفاعی اخراجات کے پیش نظر گلگت ایجنسی کا علاقہ ساٹھ سال کے لیے حکومت ہند کو مہاراجہ کشمیر کی طرف سے پٹے پر دیا گیا. اس دور میں انگریز ریزیڈنٹ کا تقرر عمل میں آیا. ظاہر ہے کہ کچھ عرصے کے لیے پٹے پر دینے سے اپنے علاقے کی حاکمیت اعلی سے کوئی حکومت دستبردار نہیں ہوتی.


 ممتاز ہاشمی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 1947 تک ان علاقوں پر بھی جموں کشمیر کا جھنڈا لہراتا رہا تھا. اقتدار اعلی اور انتظامیہ جموں کشمیر حکومت کے ہاتھ میں تھی. ریاستی حکومت نے ضلع سب ڈویژن کی صورت میں اس علاقے میں انتظام کر رکھا تھا. ایجنسی کی سرحدی علاقوں میں سیاسی انتظام وزیر وزارت گلگت کے سپرد تھا. جو ملکی انتظام فوج، مالیہ وغیرہ کے معاملے میں کلی مختیار تھا. 


چلاس, گوپس یاسین اور اشکومن پولیٹیکل علاقہ جات تھے. ان کے حکم گورنر کہلاتے تھے. جنہیں ریاستی حکومت مقرر کرتی تھی. اور انہیں ان کے سپاہیوں سمیت تنخواہ بھی ریاستی حکومت ادا کرتی تھی. کوہ و غذر کے علاقے گوپس کی گورنری میں شامل تھے. جبکہ داریل و تانگر میں ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کام کرتا تھا. ہنزہ نگر، پنیال کے جاگیرداران خاص برطانوی مقاصد کے لیے پولیٹیکل ایجنٹ کے ماتحت تھے. لیکن انتظامی اور سیاسی امور میں جموں کشمیر کی مکمل عملداری تھی. ہنزہ نگر اور پنیال کی جاگیریں گلگت ایجنسی میں شامل تھیں مگر انتظامی تقسیم ان کی مختلف تھی ان میں بعض پر مہاراجہ کے گورنر مقرر تھے. اور بعض میں مقامی راجے ہی حکومت کرتے تھے مگر سب مہاراجہ کے ماتحت تھے. یہ میر ریاست جموں کشمیر کو سالانہ نذرانہ دیا کرتے تھے.

 مختلف مؤرخین کی مختلف رائے کو دیکھنے کے بعد اب اس بات کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ انگریزوں کو یا تو پوری گلگت ایجنسی دی گئی جس کا رقبہ چودہ ہزار چھ سو اسی مربع میل تھا. یا تو انگریزوں کو گلگت ایجنسی کا کچھ حصہ دیا گیا جس کا رقبہ 1480 مربع میل تھا.



 موجودہ گلگت بلتستان جو پاکستان کے زیرانتظام ہے اس کا رقبہ 28000 مربع میل ہے جس میں بلتستان بھی شامل ہے. اس معاہدے میں بلتستان کو لیز پر نہیں دیا گیا بلکہ گلگت ایجنسی کا یا تو مختصر سا علاقہ لیز پر دیا گیا یا پوری گلگت ایجنسی کو ہی لیز پر دیا گیا تھا.


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے