مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ : Kashmir issue and UN in urdu

اقوام متحدہ اور جموں کشمیر 

19 نومبر 1947 کو وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان نے وزیراعظم بھارت پنڈت جوہر لال نہرو کو ایک ٹیلی گرام کے ذریعے تجویز دی کہ مسئلہ کشمیر کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی غرض سے اسے یو این او میں پیش کیا جائے۔ لیاقت علی خان نے اس تجویز کی ایک کاپی برطانوی وزیراعظم کو بھی ارسال کی۔ 

مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ : Kashmir issue and UN in urdu
Kashmir issue and UN

یکم جنوری 1948 کو بھارت نے اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ 35 کے تحت سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر اس بنیاد پر پیش کیا کہ پاکستان نے ریاست جموں کشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے قبائلی حملہ کروایا ہے. لہذا ریاست کو حملہ آوروں سے خالی کروایا جائے.



 سلامتی کونسل نے 6 جنوری 1948 کو مسئلہ کشمیر اپنے ایجنڈے پر رکھا بھارت کی طرف سے ریاست جموں کشمیر کے سابق وزیراعظم گوپال سوامی آئینگر اور شیخ عبداللہ جبکہ پاکستان کی طرف سے ظفر اللہ خان نے وکالت کی.

پاکستان نے اقوام متحدہ میں بھارتی شکایات پر جواب دعوی داخل کرتے ہوئے کشمیر میں با اختیار اور نمائندہ حکومت کے قیام کی تجویز پیش کی.  17 جنوری 1948 کو سیکورٹی کونسل نے کشمیر کے حوالے سے پہلی قرارداد پاس کی. جس کو بیلجیم کے نمائندے نے پیش کیا تھا. اس قرارداد میں دونوں ملکوں کو اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے مزید حالات بگاڑنے سے منع کیا گیا.


 20 جنوری 1948 کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے لیے خصوصی کمیشن UNCIP کا قیام عمل میں لایا۔ ابتدا میں سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کو ” Kashmir the Situation in Jammu” کے عنوان سے زیر بحث لایا۔ 20 جنوری 1948 کو پاکستان کے مطالبے پر اس کا عنوان انڈیا پاکستان question رکھ دیا گیا۔ 


20 جنوری 1948 کو سلامتی کونسل نے رسمی طور پر تنازع کشمیر کو جب پاک و ہند مسئلے کا نام دیا تو بھارتی مندوب گوپال سوامی نے اس پر احتجاج کیا کہ پاکستان کو ایک قابض کے بجائے فریق کیوں قرار دیا گیا۔ 20 جنوری 1948 کو تین ارکان پر مشتمل ایک کمیشن مقرر کیا گیا اور اسے حالات کا جائزہ لینے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔


سلامتی کونسل کے صدر نے پاکستان اور بھارت کے نمائندوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ اور فریقین کو متفقہ فیصلے کی طرف متوجہ کیا۔


21 اپریل 1948 کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی جس میں ریاست جموں کشمیر سے پاکستانی شہریوں اور حملہ آور قبائلیوں کی واپسی بھارتی شہریوں اور افواج کی واپسی اور ریاستی شہریوں کی اپنے گھروں کو واپسی کا فیصلہ ہوا۔ 


13 اگست 1948 کو UNCIP نے پہلی قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست جموں کشمیر کے مستقبل کی حیثیت کا تعین کشمیری عوام کی مرضی سے کیا جائے گا اس قرارداد کی رو سے مسئلہ کشمیر کو تین مرحلوں میں حل کرنے کے طریقہ کار پر اتفاق ہوا.


  •  جنگ بندی جنگ کا اختتام. 
  •  فوجیوں کی واپسی ریاست سے دونوں ملکوں کی افواج کا انخلا. 
  • رائے شماری مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری. 


قرارداد میں ناظم رائے شماری کے تقرر کی تجویز رکھی گئی یہ کام اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کرنا تھا۔ پاکستانی وزیر خارجہ ظفر اللہ خان نے 25 دسمبر 1948 کو UNCIP کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کے آزادانہ حق خودارادیت کو بھارت یا پاکستان سے الحاق تک محدود رکھا جائے۔


یکم جنوری 1949 کو محاذ کشمیر پر جنگ بندی عمل میں آئی۔ 27 جولائی 1949 کو دونوں ملکوں کے فوجی مبصرین نے جنگ بندی لائن کا تعین کیا۔ 5 جنوری 1949 کو یو این سی آئی پی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں پاکستان اور ہندوستان کی دسمبر 1948 میں تحریری طور پر پیش کردہ تجویز کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کو آزادانہ رائے کے بجائے الحاق پاکستان یا الحاق ہندوستان تک محدود کر دیا گیا۔


 مارچ 1949 میں UNCIP نے ہندوستان اور پاکستان کے نمائندوں کا اجلاس بلایا جس میں دونوں ملکوں سے 13 اگست 1948 کی قرارداد کے حصہ دوم یعنی فوجوں کے انخلا پر عمل درآمد کرنے کے لیے تجاویز مانگی گئیں. 


26 اگست 1949 کو اقوام متحدہ نے  دونوں ملکوں کی رضامندی سے امریکہ کے ایڈمرل چیسٹر ولیم نمٹز کو ثالث مقرر کیا. ثالثی کا طریقہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ 33 میں مسائل کے پرامن حل کے لیے آخری طریقے کے طور پر مذکور ہے. خود  بھارت کے دستور کی دفعہ 51 میں درج ہے کہ بین الاقوامی مسائل کو  ثالثی کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں بھارت کے لیے قابل قبول  ہوں گی۔ 


پاک بھارت ٹال مٹول نے ایڈمرل چیسٹر ولیم نمٹز کی کوششوں پر پانی پھیر  دیا۔ 17 دسمبر 1949 کو سلامتی کونسل کے صدر جنرل نے دونوں ممالک کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے مناسب تجویز پیش کی۔  ان تجویز میں آزادانہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری  کی تجاویز شامل تھی۔


 لیکن دونوں ممالک نے ٹال مٹول سے کام لیتے  ہوئے یہ تجویز ماننے سے انکار کر دیا۔ 30 مارچ 1950 کو  کمیشن نے ایک قرارداد کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے ایک ثالث  مقرر کرنے کی سفارش کی. چنانچہ 12 اپریل 1950 کو Sir Owen Dixon کو ثالثی کے فرائض سونپے گئے. 


28 مئی 1950 کو Sir Own Dixon نے برصغیر پہنچ کر کام کا آغاز کر دیا. سر اوون ڈکسن نے 20  جولائی 1950 کو پاک بھارت وزراء اعظم کی ایک  conference بلائی. جس میں تجویز پیش کی کہ پوری ریاست کو ایک  انتظامیہ کے ماتحت کر دیا جائے جو مجموعی طور پر غیر جانبدار ہو  لیکن دونوں ممالک نے یہ تجویز ماننے سے انکار کر دیا.


 چنانچہ Sir Own Dixon نے علاقائی رائے شماری کی تجویز پیش جسے پاکستان نے تسلیم  کر لیا لیکن بھارت نے اس سے انکار کر دیا.


ڈکسن کی ناکامی کے  بعد Dr Frank Porter Graham  کو فرائض سونپے گئے ڈاکٹر فرینک نے 7  ستمبر 1951 کو ضروری کاروائی کے بعد اپنی تجاویز  سلامتی کونسل کو پیش کیں. ان تجاویز کو سلامتی کونسل نے 10  نومبر 1951 کے اجلاس میں منظور کر لیا. 


20 مارچ 1951 کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد میں فریقین کو تصفیہ کشمیر کے لیے ثالثی قبول کر لینے کی ہدایت کی. 30 مارچ 1951 کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں واضح کیا  گیا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی ریاست جموں  کشمیر کے مستقبل کے ضمن میں کسی قسم کا فیصلہ کرنے کا اختیار  نہیں رکھتی. 


سلامتی کونسل نے 23 دسمبر 1952 کو ایک  قرارداد میں ڈاکٹر فرینک گراہم کی تجویز کی توسیع کی اور ریاست جموں  کشمیر سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاق کے اصول سے اتفاق کیا. 


مسئلہ کشمیر پر بوگرا نہرو مذاکرات 1953 کو نئی دہلی میں ہوئے جن کا کوئی نتیجہ نہ نکلا. 1956 میں روس کے صدر اور  وزیراعظم نے ہندوستان کا دورہ کیا اور وہ کشمیر بھی گئے. اس  دورے کے دوران انھوں نے ریاست جموں کشمیر کے بھارت سے الحاق کی حمایت کی. 


 24 جنوری 1957 کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد کے  ذریعے بھارت اور پاکستان کی حکومت کو باور کروایا کہ ریاست  جموں کشمیر کے مستقبل کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام  کروائی جانے والی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے  ذریعے کیا جائے گا. 


16 فروری 1957 کو روس نے  پاکستان کے رویے سے مایوس ہو کر UNO میں مسئلہ کشمیر کو ویٹو کر دیا. پاکستان سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں شامل ہو کر  امریکہ کا اتحادی بن گیا تھا. اس وقت پاکستان میں فیروز خان نون  کی حکومت تھی جس نے روس کے اس اقدام پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ 


21  اپریل 1957 کو سویڈن کے ایک نمائندے کو بھارت اور  پاکستان کے دورہ پر بھیجا گیا۔ تاکہ وہ فریقین سے بات چیت کریں. اس نمائندے نے واپس جا کر 29 اپریل 1957 کو یو این  او میں رپورٹ پیش کی. جس میں واضح کیا گیا کہ انڈیا اور پاکستان  کشمیر سے فوجیں نکالنے کے معاملے پر سنجیدہ نہیں ہیں ۔


27 اپریل  1962 کو حکومت پاکستان کی درخواست پر سلامتی کونسل نے  مسئلہ کشمیر پر بحث کا آغاز کیا۔ اس موقع پر بھارت کے نمائندے  مسٹر کرشنا مینن نے پہلی بار مسئلہ کشمیر کے وجود سے انکار کر دیا  اور رائے دی کہ کشمیر کا الحاق حتمی اور آخری ہے اس موقع پر روس  نے مسئلہ کشمیر کو دوبارہ کر دیا. 


22 جون 1965 کو  مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک قرارداد کا مسودہ سلامتی کونسل  میں پیش کیا گیا. یہ آئرلینڈ نے پیش کیا. اس کے حق میں چلی، چین,  فرانس, آئرلینڈ, برطانیہ, امریکہ, وینز ویلا نے ووٹ دیے. رومانیہ اور روس نے مخالفت کی. گھانا اور متحدہ عرب جمہوریہ نے  ووٹنگ میں حصہ نہ لیا. 


1965 کی جنگ کے دوران UNO کے سیکرٹری جنرل نے صلح کی کوشش کی. انہوں نے صدر پاکستان جنرل  ایوب خان اور بھارتی صدر لال بہادر شاستری سے جنگ بندی کی اپیل کی.


 9 ستمبر 1965 کو New York Times کے ایک تجزیہ نگار نے لکھا کہ کشمیر کے معاملے میں ثالثی کی ہر تجاویز کے لیے ناکامی مقدر بن چکی ہے. اور یہ حقیقت اس بنا پر ہے کہ اس وقت ماسکو واشنگٹن اور لندن تمام کے تمام بھارت کی دوستی کو زیادہ ضروری سمجھتے ہیں اور اس معاملے میں پاکستان کو کم اہمیت دیتے  ہیں. 


1965 کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کی  پیروی مسٹر ایس ایم ظفر نے کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے  1970 اور 1974 میں دو قراردادیں منظور کیں ۔  جنہیں تمام ممبر ممالک بشمول بھارت اور پاکستان نے تسلیم کیا۔  ان قراردادوں میں اس امر کی وضاحت کی گئی کہ طاقت کے زور پر حاصل کردہ علاقے پر قابض کا حق تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اور دوسرا جارحیت کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فائدے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے