معاہدہ قائمہ 1947 | Standstill agreement in urdu | جموں کشمیر انفو

معاہدہ قائمہ 1947 ء(Stand Still Agreement in urdu)


12 اگست 1947 کو ریاست جموں کشمیر کے وزیراعظم جنگ سنگھ نے پاکستان کے انچارج ریاستی امور سردار عبدالرب نشتر کو ایک ٹیلی گرام بھیجا جس میں حکومت پاکستان سے ایک عارضی معابد قائمہ کی پیشکش کی گئی ۔ معاہدہ کے تحت ان انتظامات کو جو ریاست اور سبکدوش ہونے والی برطانوی حکومت کے مابین تھے، ان انتظامات کو ریاست اور پاکستان کے مابین برقرار رکھا گیا.

معاہدہ قائمہ 1947 Standstill agreement in urdu Jammu Kashmir.info
Standstill Agreement 1947 

 

حکومت کشمیر نے ہندوستان کو بھی ایسے ہی ایک معاہدے کی پیشکش کی لیکن ہندوستان نے کوئی فوری ردعمل ظاہر نہ کیا۔ پاکستان نے 15 اگست کو اس معاہدے پر رضا مندی دے دی ۔ جس کے متن میں ڈاک تار ، دفاع اور کرنسی کے معاملات اصولاً پاکستان کے فرائض میں آ گئے.

یہ بھی پڑھیں 

معاہدہ امرتسر 16 مارچ 1846 


 چنانچہ کشمیر کے ڈاکخانوں پر پاکستان کے پرچم بھی لہرانے لگے. چند ہفتوں بعد یہ معاہدہ بے اثر ہو گیا کیونکہ پاکستانی حکومت مہاراجہ ہری سنگھ پر اعتماد کر نہ سکی۔ کشمیر میں بغاوت کے اثرات دیکھتے ہوئے پاکستان نے پنجاب سے ریاست کے لیے سپلائی کیا جانے والا سامان خورد و نوش اور دیگر ضروریات زندگی روک دیں جس سے مہاراجہ اور ریاستی عوام بلبلا اٹھی.


 پاکستان نے یہ اقدام تو کیا لیکن اس اقدام کے ساتھ ساتھ کشمیر پر قبائلی حملہ بھی کروا دیا. اس صورتحال کو دیکھ کر مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے مدد کی اپیل کی ۔ ہندوستان نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر مہاراجہ کو اپنی گود میں لے لیا۔



یہ بھی پڑھیں 

معاہدہ گلگت 26 مارچ 1935ء 

معاہدہ قائمہ تفصیلاً 

12 اگست 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ نے ٹیلی گرامز کے تبادلہ کے ذریعے پاکستان کے ساتھ معاہدہ جاریہ ( Stand Still Agreement) عمل میں لایا . جس کا مقصد یہ تھا کہ تجارت، آمدورفت اور ڈاک تار وغیرہ کے شعبے اسی طرح کام کرتے رہیں جس طرح برطانوی ہند کے ساتھ جاری تھے.


اس طرح پاکستان کو ریل، ڈاک تار اور دریائی تجارت پر کنٹرول حاصل ہو گیا. 15 اگست 1947 کو ریاست جموں کشمیر اور پاکستان کے مابین معاہدہ جاریہ پر باقاعدہ دستخط ہو گئے.


وکٹوریہ شوفیلڈ کی نظر میں  14، 15 اگست 1947 کو جموں کشمیر سٹیٹ کو وہ خودمختاری واپس مل گئی جس سے 1586  میں اکبر اعظم کے سامنے یعقوب شاہ چک دستبردار ہو گیا تھا. ریاست کی یہ آزاد خود مختیار حیثیت صرف 73 دن قائم رہی. اس معاہدے کا پاکستان کے کوتاہ اندیش حکمرانوں کے ہاتھوں کیا حشر ہوا اس پر آگے چل کر بات کریں گے . 


12 اگست 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک سے معاہدہ جاریہ کی تجویز پیش کی. پاکستان نے یہ تجویز منظور کر لی. لیکن حکومت ہند نے ٹال مٹول کرتے ہوئے یہ جواب دیا کہ "حکومت ہند کو خوشی ہوگی اگر آپ یا حکومت کشمیر کا کوئی وزیر حکومت ہند سے اس معاہدے پر مزید بات چیت کرنے کے لیے دہلی آئے" . حکومت کشمیر نے اپنا کوئی وزیر دہلی نہیں بھیجا. 


پاکستان نے اس تجویز کو منظور کر لیا اور پہلے 12 اگست کو ٹیلی گرام کے ذریعے اور بعد میں 15  اگست کو باقاعدہ معاہدے کے تحت پاکستان نے ریل ڈاک تار کے محکمے سنبھال لیے. لیکن اس کے بعد پاکستان کے حکمران لمبی تان کر سو گئے اور ان تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا. 


مختلف مصنفین کی راے میں معاہدہ قائمہ 

اس صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے رئیس احمد جعفری لکھتے ہیں. پاکستان سے معاہدہ قائمہ تو ہو گیا تھا لیکن تعلقات خوشگوار نہ ہو سکے. پاکستانی حکام نے اناج پیٹرول اور دوسری ضروریات زندگی کی رسد کم کر دی. اکتوبر میں مہر چند مہاجن کشمیر کے وزیراعظم بن گئے. وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے تھے 15 اکتوبر کو مہاجن نے وزیراعظم برطانیہ سے شکایت کی کہ حکومت پاکستان معاہدہ قائمہ پر عمل نہیں کر رہی. رسد کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے اور سیالکوٹ سے جموں تک ریلوے کا سلسلہ بھی منقطع کر دیا گیا ہے.


اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے رابٹ وارسن لکھتے ہیں. 15 اگست کو جموں کشمیر اور پاکستان کے مابین معاہدہ جاریہ پر دستخط ہو گئے تھے. لیکن اکتوبر تک حکومتیں پاکستان کے کسی ذمہ دار افسر کو حکومت کشمیر سے رابطہ قائم رکھنے کے لیے بھیجنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی. اکتوبر کے شروع میں ایک سفارتکار کرنل اے ایس پی شاہ سیکرٹری وزارت خارجہ کو سرینگر کی ضروریات کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا. یہ وہ واحد پاکستانی نمائندہ تھا جو 15 اگست سے آخری اکتوبر تک کشمیر گورنمنٹ سے بات چیت کرنے کے لیے بھیجا گیا. 


جسٹس یوسف صراف نے بھی میجر اے ایس پی شاہ کے. مشن کا ذکر اپنی کتاب میں ان الفاظ میں کیا.

حکومت پاکستان نے اپنے ایک انتہائی نااہل بیوروکریٹ میجر اے ایس پی شاہ کو سرینگر بھیجا کہ مہاراجہ کو پاکستان سے الحق کرنے پر آمادہ کریں. وہ کشمیر کی سیاست اور اس کی باریکیوں سے بالکل ناواقف تھا. جسٹس مہر چند مہاجن اور گوپال سوامی جیسے اعلی دانشوروں سے ملاقات طے کرنے کے لیے میجر شاہ جیسے شخص کو بھیجنا ناقابل فہم تھا. مہر چند مہاجن نے میجر شاہ کے بارے میں لکھا کہ میجر شاہ لاہور میں میرے سابق چیف جسٹس کا داماد تھا. اب حکومت پاکستان میں سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھا. وہ ایک ہاتھ میں کوڑا اور دوسرے ہاتھ میں الحق کی دستاویز لے کر سرینگر پہنچا تھا. میجر شاہ سری نگر سے جاتے وقت یہ دھمکی دے گیا کہ مہاراجہ کو جلد ہی اپنی حماقت پر پچھتانا پڑے گا. 


رابٹ وارسنگ نے ایک اعلی پاکستانی فوج افسر جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا سے 1986 میں لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات اپنی مشہور کتاب انڈیا پاکستان اینڈ کشمیر ڈسٹبیوٹ میں قلم بند کیے ہیں . بنیادی طور پر کشمیر کا مسئلہ مہاراجہ کشمیر یا بھارت نے نہیں بلکہ پاکستانی لیڈروں کی اپنی حماقت سے پیدا ہو گیا تھا. وادی کے اندر خفیہ کاروائیوں سپلائیز کی ترسیل میں رکاوٹ اور پاکستان کی طرف سے ہندو اور سکھ تارکینِ وطن کو کشمیر کے اندر دھکیلنے کی کاروائیوں سے قبل از وقت کشمیر کا مسئلہ کھڑا کر کہ بھارت کی مداخلت کا موقع فراہم کیا گیا. 


ایک اور مغربی مصنف لارڈ برڈاوڈ نے اس صورتحال کو اپنے الفاظ میں اس طرح قلم بند کیا ہے. 

حقائق کی تلاش کرنے والے کسی بھی شخص کو حکومت پاکستان کی طرف سے کشمیر کے ساتھ کسی بھی اعلی سطحی مذاکرات کی کوشش کے فقدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے. درحقیقت حکومت پاکستان مہاراجہ کشمیر پر اقتصادی دباؤ بڑھا کر اپنے حق میں کرنے کی کوشش کر رہی تھی. یہ سوچے بغیر ہی کے اس قسم کے دباؤ کے اثرات خود پاکستان کے خلاف جا سکتے ہیں.



 مختلف مصنفین کی راے کو دیکھنے اور اس معاہدے پر غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کو خودمختار رکھنا چاہتا تھا اور اس نے  پاکستان اور بھارت سے اچھے تعلقات رکھنے کے لیے معاہدہ جاریہ کی پیشکش کی. بھارت ریاست جموں و کشمیر کو ہڑپنا چاہتا تھا اس لیے بھارت نے معاہدہ قائمہ کی پیشکش پر ٹال مٹول کی.  بھارت کے پاس ریاست میں مداخلت کرنے کے لیے کوئی موقع نہ تھا. جب پاکستان نے معاہدہ قائمہ پر عمل نہ کیا تو بھارت کو ریاست جموں و کشمیر میں مداخلت کا موقع مل گیا. 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے