للّہ عارفہ | کشمیر کی صوفی شاعرہ للہ عارفہ کون تھی | Who Was Lal Arifa ( Lalleshwari )

 للّہ عارفہ ( 1335ء )

کشمیر کی یہ عظیم خاتون 1335ء کو سرینگر سے تین میل دور” پاندرٹھن “ گاؤں میں پیدا ہوئی. ہندو اسے لل ایشوری اور لل دید کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ کشمیری زبان میں اس کا نام لل ماجہ ہے جبکہ مسلمان اسے للّہ عارفہ کے نام سے پکارتے ہیں ۔ للّہ عارفہ کے کئی نام مستعمل ہونے کی وجہ ہے کہ برہمن زادی ہونے کے ناطے ہندو اسے ہندوانہ مذہب کی پیروکار بتاتے ہیں جبکہ مسلمانوں کے نزدیک چونکہ للّہ عارفہ مسلمان صوفیوں اور عالموں کی صحبت میں بیٹھتی تھی اس لیے اس نے سید حسین سمنانی کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

للّہ عارفہ | کشمیر کی صوفی شاعرہ للہ عارفہ کون تھی |  Who Was Lal Arifa ( Lalleshwari )
Lal Arifa ( lalleshwari ) 

للّہ عارفہ سترہ برس کی تھی کہ اس کی شادی پامپور کے برہمن سے کر دی گئی ۔ وہ جاہل آدمی تھا۔ وہ بلا وجہ للّہ عارفہ کو مارتا پیٹتا ۔ للّہ عارفہ کی ساس بھی ظالم عورت تھی وہ للّہ عارفہ کو پیٹ بھر کر کھانا نہ دیتی اور اس سے خوب محنت کرواتی ۔ روایت ہے کہ للّہ عارفہ کی ساس تھالی میں ایک پتھر رکھ کر اس کے اوپر تھوڑے سے چاول ڈال کر للّہ عارفہ کو کھانے کو دیتی بظاہر وہ تھالی بھری ہوتی لیکن جب للّہ عارفہ دو چار لقمے کھاتی تو باقی باٹ رہ جاتا ۔ للّہ عارفہ برتن دھوتے وقت اس باٹ کو بھی دھو کر برتنوں کی ٹوکری میں رکھ دیتی ۔ وہ صبر و ضبط کا پیکر بنی رہی ۔ یہ سلسلہ کئی برس تک چلتا رہا۔ جب سسرال کے مظالم کا سلسلہ بڑھا تو للّہ عارفہ دیوانوں کی شکل اختیار کر کے ویرانوں کی طرف نکل گئی ۔ اس نے ظلم بھری دنیا سے ناطہ توڑ کر جنگل میں بسیرا کر لیا ۔ وہ صوفیوں، سادھوؤں اور ریشوں کی محفلوں میں بیٹھ کر معرفت کی تعلیم حاصل کرنے لگی ۔  وہ دیوانگی کے عالم میں معرفت و حکمت کی باتیں کرتی اور اشعار کہتی جنہیں لوگ یاد کر لیتے ۔

للّہ عارفہ شوازم کی پیروکار تھی ۔ اسے بت پرستی اور ہندوانہ رسموں سے نفرت تھی ۔ وہ ایک خدا پر یقین رکھتی. ایک ہندو گرو شری کنٹھ سے اس کا مباحثہ ہوا چنانچہ وہ ہار گیا ۔ للّہ عارفہ کے دلائل کا جواب نہ دے سکا. للّہ عارفہ بدھ پیروکاروں کی کاہلی اور ہندو برہمنوں کی کوتاہ نظری کا شکوہ کرتی ۔ اس نے انسان دوستی کا فلسفہ پیش کیا ۔ وہ اخوت، مساوات اور عدل و انصاف کی پیروکار تھی ۔

کہا جاتا ہے کہ کشمیر کے عظیم صوفی بزرگ شیخ نور الدین ولی ( نندہ رشی) جب پیدا ہوئے تو وہ اپنی والدہ کا دودھ نہیں پیتے تھے۔ للّہ عارفہ کو علم ہوا تو وہ نومولود بچے کو دیکھنے آ گئی ۔ اس نے معصوم بچے کو اٹھا کر سینے سے لگایا ۔ اپنے پستان اس کے منہ میں ڈالے اور بولی” پیدا ہونے میں شرم محسوس نہ کی اب دودھ پینے سے کیوں شرماتا ہے۔ پی دودھ پی “ چنانچہ شیخ للّہ عارفہ کا دودھ پینے لگے ۔


ایک روایت ہے کہ عظیم صوفی بزرگ اور مبلغ اسلام سید علی ہمدانی جب وادی کشمیر میں پہنچے تو للّہ عارفہ کو روحانی طاقت سے ان کی آمد کا پیشگی علم ہو گیا۔ چنانچہ وہ بچاؤ بچاؤ کی آوازیں لگاتی ہوئی برہنہ حالت میں ایک جلتے ہوئے تندور میں چھلانگ لگا گئی ۔ تندور والے نے خوف کے مارے تندور بند کر دیا۔ کچھ دیر بعد سید علی ہمدانی وہاں آ گئے انہوں نے تندور کا ڈھکنا اٹھایا اور تندور میں ہاتھ ڈال کر  للّہ عارفہ کو باہر نکال دیا۔ وہ انتہائی قیمتی لباس پہنے ہوئے تندور سے باہر آئی ۔

للّہ عارفہ کشمیری زبان کی پہلی صوفی شاعرہ ہے ، اس کا کلام حکمت و معرفت کا خزینہ ہے ۔ اس نے جو واکھ کہے ہیں انہیں” للّہ واکھ “ کے عنوان سے جمع کر دیا گیا ہے جو کشمیری شاعری کا گراں بہا اثاثہ ہے ۔للّہ واکھ کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ۔

بے سمجھ لوگ کتابیں پڑھتے ہیں ان پر عمل نہیں کرتے جیسے طوطا پنجرے میں رام رام پڑھتا ہے ۔ وہ گیتا صرف دکھاوے کے لیے پڑھتے ہیں ( اس پر عمل نہیں کرتے ) میں نے گیتا پڑھی ہے اور اس پر عمل بھی کرتی ہوں"

میں نے چند دن دنیا سے محبت کی آخر اس کی اصلیت معلوم ہوئی کہ اس کی حقیقت کچھ نہیں ۔ میں نے بڑے شوق سے علم حاصل کیا مگر پڑھنے سے دل کو تسکین حاصل نہیں ہوتی “

” ریحان کی ٹہنی سے خوشبو کھبی نہیں جائے گی ۔ کتے کی کھال سے کافور نکالنے کی خواہش فضول ہے۔ اگر تو دل سے اس کو تلاش کرے گا تو وہ تیری طرف آئے گا ورنہ ان گیدڑ بھبکیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا “

وفات 

للّہ عارفہ کی وفات پر ہندو اسے جلانا چاہتے تھے جبکہ مسلمان اسے دفن کرنا چاہتے تھے لیکن جب اس کی میت سے چادر ہٹائی گئی تو وہاں پھولوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ تاریخ میں اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ یہ عظیم ہستی کہاں دفن ہے یا جلا دی گئی تھی۔

میں نے تجھے عبادت گاہوں میں تلاش کیا

میں نے تجھے ہر جگہ تلاش کیا

مگر تیرا پتہ نہ پایا 

جو زاہد اور متقی لوگوں سے پوچھا تو

انہوں نے رو کر اپنی بے بسی کا اظہار کیا 

جب میں نے عالم رنگ و بو کے تمام تفکرات کو

خیر آباد کہا تو تجھے اپنے دل میں پایا “



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے