سید علی ہمدانی | Syed Ali Hamdani | کشمیر میں اسلام کو پھیلانے والے عظیم ایرانی مبلغ اسلام

 سید علی ہمدانی

سید علی ہمدانی 12 رجب المرجب 713ء بمطابق 12 اکتوبر 1313 کو ہمدان (ایران) میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد کا نام سید شہاب الدین تھا جو صوبہ ہمدان کے حاکم اعلی تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام سیدہ فاطمہ تھا۔ آپ حسینی سید تھے۔ سترھویں پشت میں شجرہ نسب جناب محمد رسول اللہ سے جا ملتا ہے ۔ آپ کو امیر کبیر، علی ثانی اور شاہ ہمدان کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ 

سید علی ہمدانی | Syed Ali Hamdani | کشمیر میں اسلام کو پھیلانے والے عظیم ایرانی مبلغ اسلام
Syed  Ali Hamdani 

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے ماموں سید علاو الدین سمنانی سے حاصل کی ۔ شیخ تقی الدین اور شیخ محمود مزدقانی سے باطنی علوم حاصل کیے۔ آپ نے اپنے مرشد شیخ مزدقانی کی ہدایت کے مطابق تین بار دنیا کا پیدل سفر کیا۔ بہت سے علماء ،صوفیا اور اولیاء سے ملاقاتیں کیں ، روحانی فیوض و برکات حاصل کیے۔ آپ نے چالیس برس کی عمر میں شادی کی ۔

وسطی ایشیاء کے نامور فاتح امیر تیمور نے آٹھویں صدی ہجری میں ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ امیر تیمور نے سید علی ہمدانی کے اثر و رسوخ کو اپنے لیے خطرہ محسوس کیا چنانچہ اس نے آپ کو جلاوطن کر دیا۔ آپ 721ھ میں اپنے چند رفقاء کے ہمراہ کشمیر آ گئے ۔ کشمیر میں ان دنوں سلطان شمس الدین کی حکومت تھی ۔ کچھ عرصہ کشمیر میں قیام کے بعد آپ واپس ہمدان چلے گئے ۔ دوسری بار 774ھ میں سات سو سادات کو اپنے ہمراہ لائے ۔ یہ سلطان شہاب الدین کا عہد تھا جو دہلی کے سلطان فیروز شاہ تغلق سے برسرِ پیکار تھا۔ آپ نے دونوں مسلمان حاکموں میں صلح کروا دی ۔ آپ اور آپ کے رفقاء نے 37 ہزار غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ علاوہ ازیں ان بزرگوں نے کشمیر میں قرآن، حدیث ، فقہ اور دینی علوم کی درسگاہیں قائم کیں اور علم و ادب کو خوب فروغ دیا۔ یہ حضرات فنون پر بھی دسترس رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے کشمیر میں فن خطاطی، فن موسیقی، فن تعمیرات، گبہ سازی ، نمد سازی ، کنده کاری ، جلد سازی اور مصوری کو فروغ دیا۔

آپ تیسری مرتبہ 785ھ بمطابق 1383ء کو کشمیر آئے اور دریائے جہلم کے کنارے سرینگر شہر میں رشد و ہدایت کے لیے ایک مخصوص طرز کا چبوترہ بنوایا ۔ آپ یہاں عبادت کرتے اور خلق خدا کو وعظ و نصیحت کرتے ۔ اس عبادت گاہ کو خانقاہ معلی کہا جاتا ہے۔ آپ نے چند ماہ قیام فرمایا ۔ 1384 کو حج بیت اللہ کے لیے نکلے۔ راستے میں پکھلی ہزارہ کے حاکم سلطان خضر شاہ کے ہاں ٹھہرے ۔ یکم ذوالحجہ 786ھ بمطابق 14 جنوری 1385ء کو سخت علیل ہو گئے ۔ پانچ روز بستر علالت پر رہنے کے بعد 6 ذوالحجہ 786ھ کو وصال فرما گئے ۔ 

سلطان خضر شاہ آپ کو یہیں دفن کرنا چاہتا تھا لیکن آپ کے ایک مرید شیخ قوام الدین نے رائے دی کہ شیخ کا تابوت جو فریق اٹھالے وہ اپنی مرضی سے دفن کرے ۔ سلطان خضر شاہ کے مصاحب تابوت نہ اٹھا سکے ۔ حضرت کے مریدوں نے تابوت اٹھا لیا چنانچہ وصیت کے مطابق تابوت ختلان لے جایا گیا جہاں آپ آسودہ خاک ہیں۔

سید علی ہمدانی زاہد شب گزار، مرشد با کمال، مصلح اعظم،  معلم اخلاق ، انشاء پرداز اور شاعر تھے. آپ کا شمار عالم اسلام کی عظیم روحانی شخصیات میں ہوتا ہے ۔ آپ فرقہ بندی کے قائل نہ تھے ۔ اصلاح معاشرہ آپ کا اولین مقصد تھا۔ آپ حکمران طبقے کی تربیت و اصلاح فرماتے۔

ذخیرۃ الملوک

امیر کبیر سید علی ہمدانی نے اگرچہ 170 کتابیں لکھیں ان کی اپنی اہمیت و افادیت ہے۔ لیکن ان کی جس کتاب نے شہرت عام حاصل کی وه" ذخيرة الملوک ہے۔ ذخیرۃ الملوک فارسی ترکیب ہے اس کا مطلب ہے” بادشاہوں کا خزانہ“. سید علی ہمدانی نے یہ کتاب فارسی زبان میں لکھی ۔ اس کتاب میں دین و سیاست کے زریں اصول بیان کیے گئے ہیں ۔ آپ نے کامیاب انسان اور کامیاب حکمران کے تصور کو اجاگر کیا ہے۔ یہ کتاب علم و معرفت کا خزانہ ہے، علماء صوفیاء عوام الناس اور ارباب اقتدار کے لیے یکساں مفید ہے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ یہ کتاب جہانگیری و جہانبانی کے گر سکھاتی ہے۔ اس شہرہ آفاق کتاب کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے