جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی امان اللہ خان کی مکمل حالات زندگی | biography of Amanullah Khan JKLF in Urdu

 امان اللہ خان 

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی رہنما امان اللہ خان 24 اگست 1934 کو ریاست جموں کشمیر کے علاقہ گلگت استور کے گاؤں پری شنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام جمعہ خان تھا۔ آپ 3 سال کے تھے کہ آپ کے والد وفات پا گئے۔ 

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی امان اللہ خان کی مکمل حالات زندگی | biography of Amanullah Khan JKLF in Urdu
Biography of Amanullah Khan JKLF 


ابتدائی زندگی 

1940 میں انہیں ان کی ہمشیرہ جن کی شادی موجودہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں ہوئی تھی۔ اپنے ساتھ کپواڑہ لے گئیں۔ کیونکہ ایک مضبوط خاندان کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے پری شنگ میں ننھے امان اللہ خان کی جان خطرے میں تھی. 


تعلیم 

انہوں نے پرائمری کے خصوصی امتحان میں پوری تحصیل ہندواڑہ میں اول پوزیشن حاصل کر کے میرٹ سکالرشپ حاصل کیا. مڈل میں ضلع بھر میں دوم آئے اور میٹرک میں پوری کشمیر یونیورسٹی میں مسلمان لڑکوں میں اول پوزیشن حاصل کی. آپ نے 1950 میں میٹرک کی. شروع سے ہی تحریک آزادی سے وابستگی تھی اس سلسلے میں 13 سال کی عمر میں ایک رات حوالات میں بھی گزاری تھی. چنانچہ سری پرتاپ کالج سری نگر میں دوران طالب علمی بھی وہ تحریک آزادی سے وابستہ رہے اور آخر ان کی بھارت مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری نکلے. جن کی اطلاع انہیں ایک ہمدرد پولیس افسر نے دی. 

 

چنانچہ وہ سری نگر سے جموں پہنچے اور 1952 میں پاکستان آئے .چند ماہ ایڈورڈ کالج پشاور میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد وہ کراچی چلے گئے. کراچی جانے سے پہلے انہوں نے پشاور میں گلگت سٹوڈنٹ فیڈریشن قائم کی جس کے وہ پہلے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے. سلطان حمید المعروف کرنل اس کے صدر اور غازی جوہر ( سابق ڈپٹی کمشنر) جوائنٹ سیکرٹری تھے. یہ گلگت بلتستان کے طلباء کی پہلی تنظیم تھی. 



کراچی میں حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے تحریکِ آزادی کشمیر اور گلگت بلتستان سے متعلق معاملات میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں. 1957  میں انہوں نے اپنے دو ذاتی تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا اور ان اداروں کو اپنے تحریکی اور فلاحی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ کراچی میں انہوں نے سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1957 میں اپنی گریجویشن مکمل کی۔ 1962 میں آپ نے قانون کی ڈگری حاصل کی۔


وائس آف کشمیر

 جنوری 1962 میں امان اللہ خان نے کراچی سے ایک انقلابی ماہنامے وائس آف کشمیر کا اجراء کیا۔ جس نے سفارتی، صحافتی، سیاسی اور علمی محاذوں پر مسئلہ کشمیر کو اس کے اصل اور تاریخی تناظر میں کھولنا شروع کر دیا اور 1957 کے بعد اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر جستمسئلے کو بھولنا شروع ہو گئے وہ تمام علاقائی اور عالمی بھول کے پردے وائس آف کشمیر نے اتارنے شروع کر دیے. 


سیاسی جماعتیں 

انہوں نے کراچی میں کشمیر سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی. آپ پہلے اس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے جبکہ بعد ازاں صدر اور سرپرست بھی رہے. کراچی میں ہی ایک اور طلباء تنظیم جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھنے اور اس کا دستور اثاثے کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا. 


کشمیر  انڈیپنڈنٹ کمیٹی

1963 میں امان اللہ خان نے جی ایم لون کے ساتھ مل کر کشمیر  انڈیپنڈنٹ کمیٹی کی بنیاد رکھی اس پارٹی کا نظریہ خود مختیار کشمیر تھا. امان اللہ خان اپنی autobiography جدوجہد مسلسل میں لکھتے ہیں کہ اس وقت اس پارٹی میں آزاد کشمیر گلگت بلتستان اور پاکستان سے ٹوٹل 25 افراد نے شمولیت اختیار کی. جن میں سے 18 افراد وادی کشمیر اور جموں سے تعلق رکھتے تھے.


جموں کشمیر محاز رائے شماری

4 اپریل 1965 میں قائم ہونے والی تنظیم جموں کشمیر محاز رائے شماری کے آپ بانی رکن تھے. اس جماعت کے آپ جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے. 


مُسلح جدوجہد 

کچھ عرصے بعد امان اللہ خان اور ان کے چند ساتھیوں نے الجزائر اور فلسطین وغیرہ کے طرز پر مسلح جدوجہد یعنی گوریلا جنگ کے آپشن پر سوچنا شروع کیا۔ 


نیشنل لبریشن فرنٹ کا قیام

بعد ازاں 13 اگست 1965 کو پشاور میں مقیم کپواڑہ کے میجر امان اللہ کی رہائش گاہ پر تفصیلی غور و عوض کے بعد زیر زمین ایک عسکری تنظیم نیشنل لبریشن فرنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس میٹنگ میں امان اللہ خان اور مقبول بٹ کے علاوہ میجر امان اللہ اور میر عبدالقیوم بھی شامل تھے۔ 


الجزائر کی جنگ آزادی کے طرز پر این ایل ایف کی چار شاخیں بنائی گئیں۔ مسلح ونگ کے سربراہ میجر امان اللہ، سیاسی ونگ کے سربراہ امان اللہ خان، فنانس ونگ کے سربراہ میر عبدالقیوم اور رابطہ ونگ کے سربراہ مقبول بٹ مقرر ہوئے۔


حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے بھارتی مقبوضہ کشمیر بھیجنے کے لیے دو گروپ بنائے گئے۔ جن میں مسلح گروپ کی سربراہی میجر امان اللہ اور رابطہ گروپ کی سربراہی مقبول بٹ کر رہے تھے۔


10 جون 1966 کو دونوں گروپ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے۔ میجر امان اللہ ceasefire line کے قریب ہی hide out پر رہے۔ جبکہ مقبول بٹ اور اورنگزیب اور کالا خان نے ڈھائی ماہ کے دوران سری نگر، سوپور، بارہمولہ ، بانڈی پورہ اور اسلام آباد کے خفیہ دورے کر کے وہاں تنظیم کے زیر زمین hide out  قائم کیے. اس دوران مقبول بٹ ساتھیوں سمیت گرفتار اور گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے اورنگزیب شہید ہو گئے. جبکہ میجر امان اللہ ساتھیوں سمیت بخیریت واپس آزاد کشمیر پہنچے.


 مقبول بٹ کے خلاف سری نگر کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا گیا. جج نیل کنٹھ گنجو نے انہیں بھارت کے خلاف بغاوت اور پاکستانی agent ہونے کے الزام میں سزائے موت سنائی. لیکن مقبول بٹ پھانسی پر عمل درآمد ہونے سے پہلے ہی اپنے ساتھیوں کالا خان اور بشیر احمد کے ساتھ سری نگر جیل توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے اور آزاد کشمیر پہنچے. جہاں انہیں بھارت کا agent ہونے کے الزام میں گرفتار اور بعد ازاں رہا کر دیا گیا.


بھارتی طیارے کنگا کا اغوا 

1971 کے اوائل میں دو کشمیری حریت پسندوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے این ایل ایف کی تربیت کے نتیجے میں ایک بھارتی جہاز گنگا اغوا کر کے پاکستان لایا. تاکہ تحریک آزادی کشمیر عالمی توجہ کا مرکز بنے. پہلے مرحلے بڑا استقبال کیا گیا اور اغوا کاروں کی بڑی آؤ بھگت کی گئی. مگر بعد ازاں امان اللہ خان اور مقبول بٹ سمیت محاذ رائے شماری اور این ایل ایف کی پوری قیادت گرفتار کی گئی اور مختلف جیلوں میں انہیں بدترین مظالم سے گزرنا پڑا. کیس چلا اور لاہور کی عدالت نے انہیں بالآخر سب کو محب وطن قرار دے کر رہا کر دیا.


جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا قیام 

 امان اللہ خان کی سوچ اب سفارتی محاذ پر متوجہ ہونے لگی. اور 1976 میں اسی غرض سے وہ برطانیہ چلے گئے. چونکہ انگریزی زبان پر مہارت حاصل تھی اس لیے کشمیر کی تحریک حریت کو عالمی شناخت اور پورے عالم میں اس کے مفہوم کو سہل بنانے کے لیے امان اللہ خان نے اپنے دیرینہ ساتھیوں کی مشاورت کے بعد 29 مئی 1977 کو ایک عظیم تاریخ ساز تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد ڈالی.


 ابتدائی طور سفارتی محاذ پر اس پلیٹ فارم سے کام کرنے کا فیصلہ لیا گیا. آئین مرتب کیا اور اس کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے برطانیہ کے شہر نیوٹن میں ہیڈ کوارٹر قائم کر کے عالمی، سفارتی، ابلاغی اور اقوام متحدہ میں جدے مسلسل کا آغاز کردیا. برطانیہ سے دوبارہ ماہنامہ وائس آف کشمیر انٹرنیشنل کا اجراء کیا. یہ ماہنامہ کشمیریات، تحریک حریت اور تاریخ کشمیر کا عالمی ترجمان بن گیا. 


عالمی سطح پر سرگرمیاں 

18 اکتوبر 1979 میں اقوام متحدہ کے پریس روم میں امان اللہ خان نے پریس کانفرنس کی اور مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کو اس کے تاریخی تناظر میں اجاگر کیا. اقوام متحدہ کے پریس روم میں کسی کشمیری تنظیم کے نمائندے کی یہ پہلی اور اب تک کی یہ آخری پریس کانفرنس ہے.


13 اگست 1980 کو امان اللہ خان اور ان کے ساتھیوں نے اقوام متحدہ میں بھارت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی کے خطاب میں خلل ڈالا اور مسئلہ کشمیر پر حقائق پر مبنی تحریری مواد حال میں پھینکا. یہ ہنگامہ بیس منٹ تک جاری رہا ایک بار پھر یوں عالمی رائے عامہ کشمیریوں کی تحریک آزادی اور مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول ہوئی. 


 5 فروری 1984 کو امان اللہ خان کو برطانوی حکومت نے مہاترے اغوا کیس میں گرفتار کیا. 72 گھنٹوں کے بعد ہی عدم ثبوت کی بنا پر آپ کو رہا کر دیا گیا.


ستمبر 1985 میں برطانوی حکومت نے آپ کو برطانیہ میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے قتل کا منصوبہ بنانے کے جرم میں گرفتار کیا. راجیو گاندھی اس وقت برطانیہ کے دورے پر تھا. لیکن آپ اس وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے نیویارک جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے. اس خبر کو تمام قومی اور عالمی میڈیا نے شہ سرخیوں میں شائع کیا. 15 ماہ اور 10 دن برطانیہ کی عدالت میں مقدمہ چلا. لیکن عدم ثبوت کی بنیاد پر بالآخر رہائی ہوئی. مگر ساتھ ہی بھارتی حکومت کے دباؤ پر برطانیہ نے آپ کو ملک بدر کر دیا. 


جہد حریت کی پیدائش میں امان اللہ خان اپنے وطن جموں کشمیر کے ایک حصے گلگت بلتستان میں ایک سال اور ایک ماہ تک قید و بند کی صعوبتوں اور شاہی قلعہ لاہور میں 7 ہفتے تک دل خراش مظالم سے گزرے. اقوام متحدہ کے حوالات میں 1 گھنٹہ بند رہے. برمنگھم پولیس اسٹیشن میں 3 دن قید رہے.


 بیلجیم میں بھارتی حکومت کی ایماء پر انٹر پول کے ریڈ وارنٹ کے نتیجے میں 71 دن گرفتار رہے جب وہ مسئلہ کشمیر پر منحقدہ ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے. اس کانفرنس میں پہلی مرتبہ سردار عبدالقیوم خان مرحوم اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ سمیت ریاست کے دونوں اطراف کی قیادت نے بھی شرکت کی اور منظور شدہ قراردادوں کے مطابق نہ صرف امان اللہ خان کی بیلجیم حکومت سے رہائی کا مطالبہ کیا گیا بلکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں کی مذمت کی گئی۔ 


ملک بدری 

جدوجہد حریت کی پاداش میں امان اللہ خان امریکہ بدر ہوئے۔ برطانیہ بدر ہوئے بیلجیم بدر ہوئے. جبکہ پاکستان نے بھی امان اللہ خان پر پاکستان سے باہر جانے پر پابندی عائد کی. یہاں تک کہ وہ حج و عمرہ کے لیے بھی نہیں جا سکے۔ اگرچہ انہوں نے دو عمرے کر رکھے تھے۔ 


حقیقی معنوں میں مسلح جدوجہد کی شروعات 

مسلح جدوجہد کے ہیرو مقبول بٹ شہید کی شہادت کے بعد امان اللہ خان کے اعصاب پر گوریلا جدوجہد کا فلسفہ حاوی ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ رات دن اس عظیم خواب کی تعبیر کے منصوبے بنانے لگے. تنظیم کی ایک اسپیشل کمیٹی میں کشمیریوں کے ماتھے پر لگے بزدلی کے داغ کو مٹانے بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں جاری پرامن جدوجہد کو طاقت کے زور پر دبانے کے جواب میں اور اقوام عالم کو مسئلہ کشمیر کی طرف متوجہ کرانے اور قومی مقاصد کے لیے مسلح جدوجہد کو آخری آپشن کے طور پر منظور کر لیا. بھارت کی ہٹ دھرمی اور تباہ کن ضد بھی آغاز عسکریت کا سبب بنی. 


یوں 1987 سے باضابطہ اس اہم محاذ پر کام شروع ہوا اور حقیقی معنوں میں امان اللہ خان کے دیکھے خواب میں رنگ 31 جولائی 1988 کو عسکری کاروائیوں کا آغاز کر کے حاجی گروپ نے بھر دیا. حمید شیخ شہید اشفاق مجید وانی شہید جاوید احمد میر اور یاسین ملک کی وساطت سے امان اللہ خان کشمیر کی پانچ ہزارہ سال پرانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب ریاست جموں کشمیر میں برپا کرنے میں کامیاب ہوئے. 


سٹوڈنٹ لبریشن فرنٹ کا قیام 

امان اللہ خان نے 17 اپریل 1987 کو کراچی میں جموں کشمیر سٹوڈنٹ لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی گئی. اور طلباء کو اپنا بازو اور لبریشن فرنٹ کا مستقبل قرار دیا. جبکہ خواتین کے رول کو سراہتے ہوئے امان اللہ خان نے لبریشن فرنٹ کی خواتین ونگ بھی قائم کی۔


1997 میں امان اللہ خان نے گلگت بلتستان میں باضابطہ طور پر تنظیمی ڈھانچہ قائم کیا اور تحریکی سرگرمیاں شروع کی۔ 


فروری 1992 ceasefire line توڑنے کی اپیل 

11 فروری 1992 کو کشمیر کی تاریخ کا ایک اور انتہائی انقلابی اقدام کے تحت امان اللہ خان نے کشمیری عوام سے ریاست کو تقسیم کرنے والی جبری ceasefire line کو توڑنے کی اپیل کی۔ جس کو لبیک کہتے ہوئے ہزاروں لاکھوں کشمیری مظفرآباد آزاد کشمیر کی طرف روانہ ہوئے۔ اور یوں تمام چھوٹی بڑی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے دوسرے روز امان اللہ خان کی قیادت میں چکوٹھی پہنچے. جہاں پاک آرمی کی گولیوں سے سات کارکن شہید اور متحد زخمی ہوئے. جبکہ قائد تحریک سمیت ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا. 


دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں پارٹی نے قائد تحریک کی طرف سے ceasefire line توڑنے کی اپیل کی حمایت کی لیکن بھارت سرکار نے پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا. کرفیو کے باوجود متحد مقامات سے چکوٹھی کی طرف بڑے بڑے جلسے نکلے. جن پر گولیاں چلا کر درجنوں نوجوانوں کو شہید اور اس سے زیادہ تعداد میں کشمیریوں کو زخمی جبکہ ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا۔ 


مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پورے ایک مہینے تک کشمیر کو مانیٹر کرتے رہے۔ اور یوں کشمیر ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ 


امان اللہ خان اور یاسین ملک 

1994 کے وسط میں قائد انقلاب محمد یاسین ملک کی بھارتی جیل سے رہائی کے ساتھ ہی آر پار لبریشن فرنٹ کی قیادت کے درمیان عسکریت کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے کے معاملات پر اختلافات تول پکڑنے کے بعد تنظیم 1995 کے اوائل میں دو لخت ہوئی۔ 



لبریشن فرنٹ کو یکجا کرنے کی کاوشیں 

جس کو یکجا کرنے کی ایک کاوش جون 2005 میں اس وقت ہوئی جب محمد یسین ملک آل پارٹی حریت کانفرنس کے دیگر لیڈران کے ہمراہ براہ راست چکوٹھی پاکستانی حکومت کی دعوت پر یہاں تشریف لائے تھے. مگر یہ کاوش کار آمد ثابت نہ ہوئی۔ 


بعد ازاں قائد انقلاب یاسین ملک صاحب کے ایک اور پاکستانی دورے کے دوران 12 اگست 2012 کو قائد تحریک جناب امان اللہ خان کی رہائش گاہ پر ملاقات میں دونوں قائدین نے تنظیم کو ایک کرنے کا اصولی فیصلہ کیا۔ اس تاریخی موقع پر تنظیم کے سینیر لیڈران حافظ انور سماوی، محمد رفیق ڈار، سلیم ہارون اور منظور احمد خان بھی موجود تھے. اس فیصلے کی توسیع دونوں اطراف کی سینٹرل کمیٹیوں نے کی جبکہ عملی جامہ تنظیم کے سینیر قائدین نے پہنایا. 


یاسین ملک جب لبریشن فرنٹ کے چیئرمین بنے 

اس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق امان اللہ خان کو پارٹی کا تاحیات سرپرست اعلی جب کہ محمد یاسین ملک کو تاوقت convention ایک 20 رکنی مرکزی کمیٹی کی قیادت کرتے ہوئے عبوری چیرمین بنایا گیا. 14 جون 2013 کو پہلی دفعہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی 61 ممبران پر مشتمل سپریم کونسل کا آن لائن اجلاس طلب کیا گیا. جس میں باضابطہ طور پر مرکزی انتخابات عمل میں لائے گئے اور یوں یاسین ملک پارٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے. جبکہ قائد تحریک جناب امان اللہ خان کو پارٹی کے نظریاتی سربراہ یعنی سرپرست اعلی تاحیات رہنے کی توسیع کی گئی اور باقی ماندہ موجودہ مرکزی عہدیداران بھی اسی convention میں منتخب ہوئے. یہی وہ تاریخی convention تھا جس میں قائد تحریک جناب امان اللہ خان نے یاسین ملک کو اپنا جانشین قرار دیا اور سب پارٹی لیڈران کو یاسین ملک کے ہاتھ مضبوط کرنے کی تلقین کی. 


پاکستان کی CM بنانے کی پیشکش 

پاکستان نے 1973 میں انہیں پیشکش کی تھی کہ وہ گلگت بلتستان کے لیے ان کی پارٹی کے صدر بن جائیں جس کے نتیجے میں وہ خود بخود وہاں کے پہلے chief minister بن جائیں گے. لیکن انہوں نے یہ کہہ کر اس پیشکش کو مسترد کر دیا کہ میرا نظریہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ 


امان اللہ خان اور ریاست کی اکائیاں 

امان اللہ خان ریاست جموں کشمیر کی تینوں اکائیوں کی مشترکہ سیاسی property بھی کہلاتے ہیں۔ ریاست کی ایک اکائی گلگت بلتستان جہاں وہ پیدا ہوئے جس کے عوام کے سیاسی اور آئینی حقوق کے لیے انہوں نے طویل جدوجہد کی 1970 سے 1972 میں 15 ماہ کی جیل کاٹی اور تین بار گلگت بدر کیے گئے. دوسری اکائی بھارتی مقبوضہ کشمیر کی ہے جہاں 12 سال کے قیام کے دوران ان کی سیاسی نشوونما ہوئی اور تحریک آزادی سے منسلک ہو گئے. اور تیسری اکائی آزاد کشمیر ہے جہاں ان کا سیاسی نظریہ بالغ ہوا اور پھلا پھولا. امان اللہ خان تینوں حصوں کا مشترکہ اثاثہ اس لیے بھی کہلاتے ہیں کہ ان کی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ تینوں اکائیوں میں سرگرم عمل ہے. اور وہ تینوں تقسیم شدہ حصوں کی وحدت کی بحالی اور مکمل خود مختیاری کے لیے کوشاں ہیں. 


امان اللہ خان اتحاد کے حامی 

امان اللہ خان کی سیاسی پارٹیوں کے مابین ان معاملات پر جن پر انہیں اتفاق رائے ہو. اتحاد فکر و عمل کے زبردست حامی تھے. انہوں نے 1966 میں اپنی تنظیم محاذ رائے شماری کی مجلس عامہ میں تجویز پیش کی کہ آزاد کشمیر کی دوسری تنظیموں یعنی مسلم کانفرنس اور لبریشن لیگ کے ساتھ محاذ رائے شماری بھی ان امور پر اتحاد کرے جن پر تینوں متفق ہو. تجویز منظور ہوئی اور امان اللہ خان کی مسلسل کوششوں سے تینوں تنظیموں کا اتحاد سلاسل قائم ہوا. بہرحال یہ اتحاد ایک ممبر تنظیم کے عدم تعاون کی وجہ سے زیادہ دیر قائم نہ رہا.


کشمیر لبریشن الائنس

 انہوں نے 1986 میں برطانیہ بدر کیے جانے کے بعد پاکستان آ کر ایک بار پھر آزاد کشمیر کی تنظیموں میں اتحاد فکر و عمل پیدا کرنے کی کوشش کی. اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان اور صدر سردار سکندر حیات خان کی بھرپور حمایت سے 12 کشمیری پارٹیوں پر مشتمل کشمیر لبریشن الائنس KLA قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے. اور انہیں ہی اتحاد کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا. لیکن آزاد کشمیر میں حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ اتحاد بھی ختم ہو گیا. البتہ امان اللہ خان نے اتحاد کی کوششیں جاری رکھیں.


کشمیر کمیٹی برائے حق خود ارادیت

 2008 میں ایک بار پھر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی 15 سیاسی تنظیموں کے سربراہوں کو ایک جگہ جمع کرنے اور ان پر مشتمل ایک یک نکاتی ایجنڈے یعنی حق خود ارادیت کے اصول کے لیے کل جماعتی کشمیر کمیٹی برائے حق خود ارادیت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے. 


قلمی محاذ پر خدمات 

امان اللہ خان نے مختلف قومی اور بین الاقوامی اخباروں میں نہ صرف مختلف موضوعات پر کالم لکھے بلکہ مسئلہ کشمیر، تاریخ کشمیر اور پارٹی کے نظریات پر مبنی اردو اور انگریزی میں درجنوں کتابیں لکھیں. دو کتابیں" فری کشمیر" اور tragic story of Kashmir جبکہ درجنوں کتابچوں اور سینکڑوں پمفلٹوں کے علاوہ اردو میں تین جلدوں پر مشتمل "جد مسلسل" اور "خود مختیار کشمیر کیوں "دنیا کے خبرو نظر حلقوں میں بطور سند موجود ہیں. 


بیٹی کی شادی 

امان اللہ خان نے اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی سن دو ہزار میں عبدالغنی لون کے بیٹے سجاد غنی لون کے ساتھ کی جو آج جموں کشمیر پیپل کانفرنس کے چیئرمین ہیں. 


وفات 

2006 کے بعد امان اللہ خان پر یکے بعد دیگر فالج کے 3 حملے ہوئے. جس وجہ سے وہ جسمانی طور پر کافی کمزور ہو گئے. پاکستان گلگت بلتستان کو چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی وجہ سے پانچواں صوبہ بنانے کا منصوبہ بنا رہا تھا کہ امان اللہ خان نے اس اقدام کو روکنے کی غرض سے علالت کے باوجود عمر کے اس حصے میں شدید سردی کے موسم میں 21 جنوری تا 3 مارچ 2016 تک لبریشن فرنٹ کے ایک اعلی وفد کی قیادت کرتے ہوئے دورہ گلگت کیا. جہاں انہوں نے گلگت بلتستان کی انتظامیہ اور سیاسی لیڈروں کو ایسے کسی بھی اقدام سے دور رہنے کی تلقین کی. جس سے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت متاثر ہو رہی ہو. 


گلگت بلتستان سے واپسی کے ساتھ ہی امان اللہ خان کو سینے میں تکلیف شروع ہوئی جس کے بعد انہیں سانس لینے میں کافی دشواری ہوئی. مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہنے کے بعد آخر کار 26 اپریل 2016 کو ہارٹ انٹرنیشنل ہسپتال صدر راولپنڈی میں صبح 8:30 بجے داعی اجل کو لبیک کہہ بیٹھے اور وصیت کے مطابق ہمالیہ کے دامن گلگت میں آسودہ خاک ہیں. 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے