میاں محمد بخش | پنجابی شاعری کے معروف کشمیری شاعر | حالات و واقعات

میاں محمد بخش کون تھے 

میاں محمد بخش کون تھے مکمل حالات زندگی پر مبنی مضمون جس میں میاں محمد بخش کی پیدائش سے وفات تک مختصراً ان کی زندگی قلمبند کرنے کی کوشش کی گئی ہے.

urdu inni biography Muhammad Bakhsh MianiM
Mian Muhammad Bakhsh biography in urdu 

 

Mian Muhammad Bakhsh biography in urdu 

خاندان 

 میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ آزاد جموں کشمیر کے ضلع میر پور میں 1830 میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد جموں کے رہنے والے تھے جن کی قومیت پسوال گجر تھی۔ بعد میں یہ قبیلہ جہلم اور گجرات کے اضلاع میں نقل مکانی کر گیا ۔


میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کے پردادا نے ضلع گجرات میں چک بہرام میں سکونت اختیار کی اور پھر میرپور کے علاقے کھڑی شریف میں منتقل ہو گئے۔ میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کے والد کا نام میاں شمس الدین تھا۔ میاں محمد بخش کے خاندان کی چار نسلیں علاقے کے انتہائی قابل احترام صوفی بزرگ پیر شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے دربار سے منسلک رہیں۔ ان کے پردادا میاں دین محمد رحمتہ اللہ علیہ حضرت پیر شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ اور بعد میں جانشین بنے۔ میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کے دادا اور والد بھی اسی دربار عالیہ کے سجادہ نشین رہے۔



ابتدائی زندگی 

میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے بڑے بھائی میاں بہاول بخش رحمتہ اللہ علیہ نے سموال شریف میں حافظ محمد علی کے مدرسہ سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ انہیں فارسی اور عربی زبانوں پر کافی عبور حاصل تھا۔ اپنی ابتدائی عمر سے ہی انہوں نے شاعری میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ نورالدین عبدالرحمن جامی رحمتہ اللہ علیہ کی یوسف ذلیخاں کو پڑھنا ان کا خاص شوق تھا. 


تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ پیر غلام محمد رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد بن گئے انہی کی ہدایت پر انہوں نے سری نگر کا دورہ کیا اور صوفی بزرگ شیخ احمد ولی رحمتہ اللہ علیہ کے حلقہ ارادت میں شامل رہے. 


ان کے والد میاں شمس الدین رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی موت سے قبل میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ سے کہا کہ وہ اگلے سجادہ نشین ہوں لیکن میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ نے تجویز پیش کی کہ ان کے بھائی میاں بہاول بخش رحمتہ اللہ علیہ جو ان سے چند سال بڑے تھے کو سجادہ نشین بنایا جائے. اپنے والد کی وفات کے بعد آپ نے تقریبا چار سال انہی کے کمرے میں سکونت اختیار کی. اس کے بعد انہوں نے مزار سے ملحق جگہ پر گھاس پھوس کی ایک حجرہ نما جھونپڑی بنائی اور چودہ سال وہاں قیام کیا. 


دربار پیر شاہ غازی کے سجادہ نشین

1880 میں میاں بہاول بخش رحمت اللہ علیہ کے انتقال کے بعد دربار پیر شاہ غازی کے سجادہ نشین بنے اور اپنی باقی عمر کھڑی شریف میں ہی گزاری.


آپ نے بچپن میں ہی علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کی ابتدا ہی سے بزرگان دین سے فیض و برکات حاصل کرنے کے لیے سیر و سیاحت کی. کشمیر کے جنگلوں میں کئی ایک مجاہدے کیے. 


میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ ایک بلند درجہ عارف اور ولی اللہ ہونے کے علاوہ ایک آفاقی شاعر بھی تھے آپ نے عشق حقیقی اور محبوب حقیقی کے تعلق کو مجازی روپ میں پیش کیا. آپ کا اصل موضوع حسن و عشق اور پیار و محبت ہے. خدا کی ذات اور صفات کو پہچاننا، کارخانہ قدرت میں تدبر اور فکر کرنا اپنے آپ کو پہچاننا اور خالق کائنات کی معرفت میں لگے رہنا اور طلب جستجو سے کبھی نہ اکتانا آپ کی شاعری کے موضوعات ہیں. لیکن آپ کا بنیادی نظریہ طلب اور جستجو ہے. 


سیف الملوک 

آپ نے سیف الملوک کی داستان سفر عشق اپنے مرشد اور بڑے بھائی جناب میاں بہاول بخش رحمت اللہ علیہ کی فرمائش پر لکھی. انہوں نے کتابوں میں یہ قصہ پڑھا تھا اور آپ سے فرمائش کی کہ آپ یہ قصہ منظوم کریں۔ لیکن ایسا قصہ منظم کرنا جو کہ اپنے مرشد کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی پسند آئے۔ ایک بہت ہی مشکل کام تھا۔ وہ اپنے مرشد کو ناراض بھی نہیں کر سکتے تھے اس لیے اس مشکل کام کو کرنے کی ٹھان لی۔ آپ نے اس قصہ کو منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ایک ایسا شاہکار قصہ تصنیف ہوا۔ جو پنجابی ادب میں ایک گراں قدر اہمیت رکھتا ہے۔ 


سیف الملوک اگرچہ حسن و عشق کی ایک رومانی داستان ہے لیکن میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو تصوف کے رنگ میں بہت عمدگی سے ڈھلا ہے. سیف الملوک ایک شہزادی اور شہزادے کی عاشقیہ داستان ہی نہیں بلکہ گنجینہ معرفت اور مخزن اخلاق بھی ہے. 


تصانیف 

آپ نے کم و بیش 18 کتابیں لکھیں جن میں سترہ کتابیں پنجابی زبان میں جبکہ ایک کتاب فارسی زبان میں ہے پنجابی زبان میں آپ نے کم و بیش 28000 اشعار یعنی 56000 مصرعے لکھے ہیں. جن کا تحریری ثبوت موجود ہے.


آپ کی مشہور کتابیں جن میں سوہنی ماہیوال , تحفہ میرا, قصہ شیخ سنان, نیر نگے عشق, قصہ شاہ منصور, شیریں فرہاد, تحفہ رسولیہ, گلزار فکر, سسی پنوں, مرزا صاحبہ, ہدایت مسلمین، پنج گنج, تذکرہ مکیمی, ہیر رانجھا اور سب سے مشہور سیف الملوک جس کا نام انہوں نے خود سفر العشق رکھا تھا. انہوں نے سیف الملوک صرف 33 سال کی عمر میں مکمل کر لی. اس میں 9270 اشعار اور 64 ابواب ہیں. اس کے تمام عنوان فارسی زبان میں ہیں. 


شادی 

میاں محمد بخش رحمت اللہ علیہ نے ساری عمر شادی نہیں کی. 


وفات 

آپ کی وفات 1907 بمطابق 1324 ہجری اپنے آبائی وطن کھڑی شریف ضلع میر پور میں ہوئی. اور وہاں پر ہی آپ کا مزار ہے. آپ کا عرس مبارک ہجری کلینڈر کے مطابق منایا جاتا ہے. آپ کا انتقال 31 جنوری 1907 کو ہوا اور مزار کے احاطے میں ہی آپ کو دفن کیا گیا.


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے