حریت رہنما سید علی گیلانی کون تھے، مکمل داستان |Syed Ali Shah Geelani biography in urdu

سید علی گیلانی


 حریت رہنما سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور میں ایک آسودہ حال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سیّد پیر شاہ گیلانی تھا. 

حریت رہنما سید علی گیلانی کون تھے، مکمل داستان |Syed Ali Shah Geelani biography in urdu
Syed Ali geelani 


ان کے اجداد مشرق وسطیٰ سے ہجرت کر کے کشمیر میں آباد ہوئے.

ابتدائی زندگی 

ابتدائی تعلیم سوپور میں حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے اورینٹل کالج لاہور چلے گئے، جہاں وہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے خیالات اور علامہ اقبال کی شاعری سے بے حد متاثر تھے.


1949ء میں بطور استاد، ملازمت شروع کی اور بارہ برس تک مختلف اسکولز میں پڑھاتے رہے. 


 انھوں نے1953 میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ شعر و سخن اور حُسنِ خطابت کی وجہ سے بہت جلد جماعت کے اہم رہنما کے طور پر مشہور ہو گئے۔ 


سیّد علی گیلانی نے 1972ء اور 1977ء میں جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصّہ لیا اور سو پور سے رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے۔1987ء کا الیکشن’’ مسلم متحدہ محاذ‘‘ کے پلیٹ فارم سے لڑا ، جس کے قائد وہ خود تھے۔اِس اتحاد کو اسمبلی میں آنے سے روکنے کے لیے بدترین دھاندلی کی گئی، لیکن اِس کے باوجود وہ اسمبلی پہنچ ہی گئے۔



 مقامی اسمبلی میں وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتے رہے.


کشمیر میں جب مسلح تحریک شروع ہوئی تو محاذ کے ایک رُکن اسمبلی عبدالرزاق پُراسرار حالات میں مارے گئے تو سید علی گیلانی سمیت چاروں ارکان، اسمبلی کی رُکنیت سے مستعفی ہو گئے۔


ان کے ساتھ روشن خیال پیپلز کانفرنس کے رہنما عبدالغنی لون نے بھی استعفیٰ دیا اور دونوں نے تحریکِ آزادی کی حمایت کا اعلان کر دیا.


سید علی گیلانی نے مسلح تحریک کی کھل کر حمایت کی اور اسے کشمیریوں کی طرف سے ’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘ کے مصداق ایک ردعمل قرار دیا۔ انھوں نے کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا۔


1990 کی دہائی کے اوائل میں ہی سید علی گیلانی ایک مقبول  پاکستان نواز رہنما کے طور اُبھرے لیکن عبدالغنی لون کے ساتھ ان کے نظریاتی اختلافات کھل کر سامنے آئے۔


اسی دوران پاکستان نے پاکستان نواز مسلح گروپوں کی کھل کر حمایت کی اور لبریشن فرنٹ جیسی تنظیموں کو نظرانداز کیا، جس کے نتیجے میں حزب المجاہدین جس کی حمایت دیگر پاکستان نواز گروپ کر رہے تھے اور بھارت اور پاکستان سے مکمل آزادی کی خواہاں جماعتوں کے درمیان نظریاتی جنگ چھڑ گئی۔


اسی پس منظر میں گیلانی اور لون نے کُل جماعتی حریت کانفرنس کے قیام میں کلیدی کردار نبھایا اور نظریاتی جنگ تھم گئی۔


1993 میں ’’ آل پارٹیز حریت کانفرنس‘‘کا قیام عمل میں آیا، تو وہ اُس کے سربراہ منتخب ہوئے۔بعدازاں، یہ فورم دو حصّوں میں تقسیم ہوگیا، جس میں سے ایک کی قیادت سیّد علی گیلانی اور دوسرے کی میر واعظ عمر فاروق کے پاس تھی. 


اُنھوں نے 2003ء میں جماعتِ اسلامی کی مشاورت سے اشرف صحرائی کے ساتھ مل کر ایک الگ تنظیم’’ تحریکِ حریت جمّوں وکشمیر‘‘ کی بھی بنیاد رکھی تھی۔وہ معروف عالمی مسلم فورم’’رابطہ عالم اسلامی‘‘ کے بھی رُکن رہے اور یہ اعزاز حاصل کرنے والے وہ پہلے کشمیری رہنما تھے۔


سید علی گیلانی تقریباً ڈیڑھ دہائی تک جیلوں میں بند رہے، یہاں تک کہ اُن کا جنازہ بھی قیدی ہی کی حیثیت سے اُٹھا۔ پہلی بار 1962 ء میں گرفتار ہوئے اور 13 ماہ قید رہے۔1965 ء میں ایک بار پھر گرفتار ہوئے اور 22 ماہ جیل میں بند رہے۔ یوں گرفتاریوں اور نظر بندیوں کا یہ سلسلہ زندگی بَھر جاری رہا۔


پرویز مشرف نے مسئلۂ کشمیر کے لیے ’’چناب فارمولا‘‘ جیسے حل تجویز کیے، تو سیّد علی گیلانی نے سخت مزاحمت کی۔یہاں تک کہ 2005ء میں نئی دلّی کے پاکستانی سفارت خانے میں پرویز مشرف اور اُن کے درمیان ہونے والی ملاقات میں تلخ کلامی تک نوبت جا پہنچی۔


سید علی گیلانی کی رخصت کے بعد مشرف نے ٹھیٹ پنجابی میں اپنے ساتھیوں سے کہا: ’باباجی نُو گل سمجھ نی آندی، انھاں نوں کی پتہ ٹیکٹیکل ریٹریٹ کی ہوندا ہے {باباجی کو بات سمجھ نہیں آتی، انھیں کیا پتہ ٹیکٹیکل ریٹریٹ کسے کہتے ہیں)۔‘


سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر میں قانون کے پروفیسر شیخ شوکت حُسین کہتے ہیں کہ ’پاکستان کو چیلنج کرنے سے گیلانی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اُن کا موقف مزید مضبوط ہو گیا اور وہ نوجوانوں کے لیڈر بن گئے۔ احتجاجی مظاہروں میں نوجوان اُن کی تصویر ایک انقلابی رہنما کے طور بلند کرنے لگے۔‘


اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے نوجوانوں نے گیلانی کی حمایت میں کئی نعرے بھی اختراع کیے مثلاً ’کون کرے گا ترجمانی ، سید علی شاہ گیلانی‘ اور ’نہ جُھکنے والا، گیلانی، نہ رُکنے والا گیلانی۔‘


سید علی گیلانی کے موقف کو اس قدر مقبولیت  کیوں ملی؟ اس کے جواب میں تجزیہ نگار اعجاز ایوب کہتے ہیں: 'کشمیریوں نے شیخ محمد عبداللہ کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اسے خوب پیار دیا۔


لیکن بائیس سال تک رائے شماری کی تحریک چلانے اور اتنی ہی مدت جیل میں گزارنے کے بعد 1971 میں جب انھوں نے اندرا گاندھی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے کشمیر کا اقتدار سنبھالا تو کشمیریوں کی توقعات کا قتل ہو گیا۔ گیلانی نے مواقع دستیاب ہونے کے باوجود کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور لوگوں کو گیلانی میں 1971 سے پہلے والا شیخ عبداللہ نظر آیا۔'


2014 میں جب نریندر مودی نے نئی دلی میں بی جے پی کی غالب اکثریت کے ساتھ اقتدار سنبھالا تو کشمیر کی طرف نئی دلی کا رویہ سخت ترین ہو گیا۔ خدشات اور خوف کی فضا کے بیچ حریت کانفرنس کے ماڈریٹ حلقوں کا لہجہ گیلانی کے ساتھ ملنے لگا اور نظریاتی اختلاف کے باوجود میر واعظ عمر فاروق، سید علی گیلانی اور یاسین ملک کی سیاسی سمت ایک جیسی نظر آنے لگی. 


2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد برپا ہونے والی عوامی تحریک نے تینوں رہنماؤں کو مشترکہ مزاحمتی فورم نامی بینر تلے اِکھٹا کر لیا اور عوام کی غالب اکثریت نے اس اتحاد پر اطمینان کا اظہاربھی کیا، کیونکہ فورم کی اپیلوں پر ہڑتالیں ہوتی تھیں اور مظاہرے بھی ہوتے تھے۔ اس فورم کی قیادت میں ہی ہند مخالف تحریک 2019 کے موسم گرما تک چلی۔ لیکن نریندر مودی کے دوبارہ برسراقتدار آتے ہی جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ کو کالعدم قرار دیا گیا اور سینکڑوں رہنماؤں سمیت یاسین ملک کو بھی جیل بھیج دیا گیا۔


گیلانی پہلے ہی کئی برسوں سے گھر میں نظر بند تھے۔ پھر اُسی سال پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا جس کے نتائج کشمیری آج بھی گرفتاریوں اور خوف و ہراس کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ 


عمران خان کے دور حکومت میں ایک بار پھر کشمیر کے کئی حل سامنے آنے لگے، تو اُنہوں نے وزیرِ اعظم، عمران خان کو خط لکھ کر خبر دار کیا کہ ایسی کوششیں نہ کی جائیں، جن سے مسئلہ کشمیر سردخانے کی نذر ہو یا جن سے تقسیمِ کشمیر کی بُو آئے۔ 


اس سوال کو  اٹھانے پر انہیں 'ھندوتوا کا ایجنٹ' اور 'غدار' قرار دیا گیا. 


سید علی گیلانی کا ذاتی موقف الحاق پاکستان تھا لیکن سب سے پہلے وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت یعنی رائے شماری کو بنیادی مسئلہ قرار دیتے تھے. اسی مقصد کے لیے وہ ساری زندگی کوشاں رہے. عالم اسلام کے اتحاد میں ہی وہ تمام مسلمانوں کی بقا سمجھتے تھے. 


ساری زندگی ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے جیسے نعروں کو وادی میں لگانے والے 

سید علی گیلانی کو پاکستانی حکومت اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے پاگل بڈھا، ھندوتوا کا ایجنٹ، اور غدار جیسے القاب سے بھی نوازا. لیکن اس کا جواب آج تک کسی نے نہیں دیا کہ کیا پاکستان کے نزدیک سید علی گیلانی ایسے القاب کے حقدار تھے. 



 سید علی گیلانی نے ہمیشہ جموں و کشمیر کو اتفاق و اتحاد کا درس دیا. میروعظ عمر فاروق اور یسین ملک کو دائیں بائیں ھمیشہ ساتھ رکھا.


14 اگست 2020ء کو پاکستانی صدر ، ڈاکٹر عارف علوی نے حریّت رہنما، سیّد علی شاہ گیلانی کو آزادی کے لیے بے مثال جدوجہد پر پاکستان کے سب سے بڑے اعزاز’’ نشانِ پاکستان‘‘سے نوازا اور ایوانِ صدر میں منعقدہ تقریب میں سیّد علی گیلانی کے لیے یہ ایوارڈ حریّت کانفرنس، آزاد کشمیر شاخ نے وصول کیا۔


وفات

ان کا انتقال یکم ستمبر 2021ء کو سری نگر میں اپنی حیدر پورہ رہائش گاہ پر ہوا۔


بھارت نے ان کی وفات کے دن سرینگر میں کرفیو نافذ کر دیا اور لوگوں کو ان کی میت کے قریب آنے نہ دیا. 


سید علی گیلانی نے وصیّت کی تھی کہ اُنھیں مزارِ شہداء، سری نگر میں سپردِ خاک کیا جائے، مگر اس کی اجازت نہیں دی گئی۔اہلِ خانہ تدفین کی تیاری کر رہے تھے، تو بھارتی فورسز کی بھاری نفری رات تین بجے گھر میں گُھس گئی اور میّت زبردستی اپنے قبضے میں لے لی۔


قابض فورسز نے لواحقین پر دباؤ ڈالا کہ وہ میّت کو ایک گھنٹے کے اندر سپردِ خاک کردیں، جس پر اہلِ خانہ نے کہا کہ وہ فجر کے بعد تدفین کرنا چاہتے ہیں، لیکن اہل کاروں نے اِتنی مہلت بھی دینے سے صاف انکار کردیا۔


اِس دوران ان کے بیٹے ، ڈاکٹر نعیم گیلانی اور اُن کی اہلیہ پر تشدّد کیا گیا، جس سے وہ زخمی ہوگئے. 


مسلّح اہل کاروں نے رات ساڑھے 4بجے زبردستی تدفین کردی۔ سید علی گیلانی کے بیٹے ،ڈاکٹر نعیم گیلانی کے بقول،’’ ابّا جان کو کس نے غسل دیا، اْن کے جنازے میں کون شامل ہوا اور ان کی کس نے تدفین کی؟ اس کا ہمیں کچھ پتا نہیں۔‘‘


تصنیف 

 سید علی شاہ گیلانی نے اپنی تصنیف و تالیف اور خطابت کی خوبیوں سے بھی عوامی بیداری کا خُوب کام لیا ۔ اُنھوں نے دو درجن سے زاید کتب لکھیں، جن میں ولر کنارے، رودادِ قفس، اقبال ،روحِ دین کا شناسا، قصۂ درد، نوائے حریّت، بھارت کے استعماری حربے، عیدین، مقتل سے واپسی، صدائے درد، سفرِ محمود میں ذکرِ مظلوم،  ملتِ مظلوم، پیامِ آخرین، اقبال اپنے پیغام کی روشنی میں، ایک پہلو یہ بھی ہےکشمیر کی تصویر کا، ہجرت اور شہادت، تحریکِ حریّت کے تین اہداف، معراج کا پیغام، نوجوانانِ ملّت کے نام، دستور تحریکِ حریّت اور انگریزی کتاب’’what should be done‘‘  شامل ہیں۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے