13 جولائی 1931 کو کیا ہوا تھا | یومِ شہدائے کشمیر | Kashmir Martyrs Day in urdu

 13 جولائی 1931 کا دن تحریکِ حریت کشمیر میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے. یوں تو تاریخ کشمیر میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جب ریاستی عوام نے غیر ملکی تسلط کے خلاف یا پھر اپنے ہی ہم وطنوں کے ظلم و جبر کے خلاف صدائے حریت بلند کی. اور پھر اس جرم کی پاداش میں انہیں قید و بند کی صحبتیں یا جان و مال کی قربانی پیش کرنا پڑی.

یومِ شہدائے کشمیر 

13 جولائی 1931 کا واقعہ بھی ایسے ہی سرفروشوں کی یادگار ہے. جنہوں نے دینی غیرت و اہمیت اور ملی جذبے سے سرشار ہو کر جانوں کے نظرانے پیش کیے. اور تحریک حریت کشمیر میں اپنا لہو شامل کر کے اس داستان آزادی کو لہو سے رقم کر گئے. یہی وجہ ہے کہ کشمیری قوم ہر سال تیرہ جولائی کا دن یوم شہدائے کشمیر کے حوالے سے مناتی ہے. اور 1931 کے 22 شہیدوں کو بالخصوص اور لاکھوں شہیدوں کو بالعموم خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ جب تک ظلم و جبر، استحصال اور غلامی سے پاک ایک آزادانہ منصفانہ اور فلاحی معاشرے کا قیام عمل میں نہیں آجاتا اس وقت تک کشمیری عوام کی یہ جدوجہد جاری رہے گی۔

Kashmir Martyrs Day #Youm-e-Shuhada-e-Kashmir
Kashmir Martyrs Day 


13 جولائی 1931 کو کیا ہوا تھا

 آئیے 13 جولائی 1931 کے اس خونی واقعہ کی تفصیلات اور تحریک حریت کشمیر میں اس کی اہمیت و افادیت یا اثرات و نتائج کا جائزہ لینے سے پہلے ذرا اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ عظیم سانحہ کیوں پیش آیا۔ 


ریاست جموں کشمیر میں سال 1931 کے اوائل میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن کے نتیجے میں مسلمانانِ ریاست کی دینی و ملی غیرت کو سخت دھچکا لگا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ جب تک وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے یہ خواب غفلت میں ڈوبے رہیں گے. ان کے سیاسی, مذہبی اور معاشرتی حقوق آئے روز پامال ہوتے رہیں گے. ان کا ضامن کوئی نہ ہوگا.



1931 کا سال مسلمانان کشمیر کے لیے سیاسی بیداری کا سال بھی کہلاتا ہے. اس سال جولائی سے قبل پیش آمدہ واقعات اس بیداری کا سبب بنے. چند نمایاں واقعات حسب ذیل ہیں. 


بندش خطبہ

29 اپریل 1931 کو عید الاضحی کا دن تھا. جموں کے مسلمان نماز عید کی ادائیگی کے لیے میونسپل کمیٹی باغ میں جمع تھے. مفتی محمد اسحاق خطبہ دے رہے تھے. دوران خطبہ جب انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کے کردار کا ذکر چھیڑا تو ڈیوٹی پر موجود پولیس انسپکٹر لالہ کھیم چند اشتعال میں آ گیا اور اس نے آگے بڑھ کر مفتی صاحب کو خطبہ روک دینے کا حکم دیا. چنانچہ امام صاحب نے خطبہ روک دیا. عید گاہ میں موجود مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا. مسلمانوں نے نہایت بے چینی سے نماز ادا کی. 


نماز عید کی ادائیگی کے بعد مسلمان سراپا احتجاج بن گئے. اسی روز ینگ میز مسلم ایسوسی ایشن جموں کے زیر اہتمام جامع مسجد میں خطبہ کے اس واقعہ کے خلاف احتجاجی جلسہ منعقد ہوا. اس جلسے کی صدارت میر حسین بخش نے کی. سردار گوہر رحمان خان، شیخ عبدالحمید ایڈووکیٹ، چوہدری غلام عباس اور دیگر مقررین نے جلسے سے خطاب کیا اور حکومت پر کڑی تنقید کی. 


جلسے میں قراردادیں پیش کی گئیں جن میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت مداخلت فی دین سے باز رہے اور لالہ کھیم چند پر توہین مذہب کا مقدمہ چلایا جائے. بندش خطبہ کی یہ خبر جب ریاست کے دیگر علاقوں میں پہنچی تو وہاں بھی مسلمانوں کو دکھ اور صدمہ پہنچا. 


ڈگھور میں تصادم 

جموں کی تحصیل سامبہ کے گاؤں ڈگھور میں ہندو اور مسلمان ایک ہی تالاب سے پانی بھرتے تھے. عید کے روز ہندوؤں اور مسلمانوں میں تصادم ہو گیا اور ہندوؤں نے مسلمانوں کو تالاب سے پانی بھرنے سے منع کر دیا. 


پولیس نے مداخلت کی اور مسلمانوں کو تالاب سے پانی لینے سے روک دیا. اور تالاب سے ملحق جگہ میں نماز عید کی ادائیگی سے بھی روک دیا. اس واقعہ کے خلاف جموں میں ینگ میز مسلم ایسوسی ایشن اور انجمن اسلامیہ جموں نے احتجاجی مظاہرے کیے. 


 توہین قرآن کا پہلا واقعہ

 4 جون 1931 کو سینٹرل جیل جموں میں میرپور سے تعلق رکھنے والا ایک مسلمان کانسٹیبل فضل داد خان ڈیوٹی کی اوقات میں اپنے بستر پر بیٹھا پنج سورہ کی تلاوت کر رہا تھا. سب انسپکٹر لبھورام آیا تو اس نے فضل داد کو برا بھلا کہا اور اس کا سرہانہ کھینچ کر فرش پر دے مارا. اس سے پنج سورہ بھی زمین پر جا گرا. فضل داد نے اپنے سینیر حکام کے پاس لبھورام کے خلاف شکایت کی. لیکن جب اس کی کوئی سنوائی نہ ہوئی تو اس نے ایک تحریری درخواست ینگ میز مسلم ایسوسی ایشن جموں کو پیش کی. 


6 جون کو ایسوسی ایشن کی اپیل پر جموں شہر میں مسلمانوں نے ہڑتال کی شام کو تالاب کھٹیکاں میں ایک احتجاجی جلسہ ہوا جس میں توہین قرآن کے اس واقعہ کی شدید مذمت کی. جموں میں اس واقعہ کے خلاف کئی روز تک جلسے جلوس ہوتے رہے اس واقعہ کی اطلاع جب ریاست کے دوسرے حصوں میں پہنچی تو وہاں بھی مسلمانوں نے احتجاج کیا. 


توہین قرآن کا دوسرا واقعہ 

توہین قرآن کا دوسرا واقعہ 20 جون کو سری نگر میں پیش آیا. قرآن پاک کے مقدس اوراق ایک پبلک لیٹرین سے ملے. اس واقعہ کے خلاف وادی میں مسلمانوں نے سخت احتجاج کیا. میر واعظ مولانا یوسف شاہ اور ریڈنگ روم کے نوجوانوں نے احتجاجی مظاہرے کیے. اور واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا.


توہین مذہب کے مذکورہ بالا پے در پے واقعات نے مسلمانانِ ریاست جموں کشمیر کی دینی اور ملی غیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا.


ان واقعات کے نتیجے میں جموں، میرپور، پونچھ اور سری نگر میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کا ایک لا متنائی سلسلہ شروع ہو گیا. ریاستی تاریخ میں ایسے مظاہروں کی مثال کبھی نہیں ملتی.


پنجاب میں مسلم اخبارات اور رسائل اور مسلم قائدین بھی ان واقعات سے پوری طرح با خبر تھے. مسلمانوں کے ترجمان اخبارات انقلاب، سیاست وغیرہ نے ان خبروں کو شے سرخیوں کے ساتھ شائع کیا اور مسلمانوں کے ردعمل کو ہندوستان بھر سے منظر عام پر لایا. اس سے ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی غم و غصے کی لہر دوڑ گئی. چنانچہ مسلمانان کشمیر کی تائید و حمایت میں ہندوستان کے کچھ حصوں میں بھی جلسے جلوس ہوئے. 


صوبہ جموں میں بگڑتی ہوئی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ریاست جموں و کشمیر کا وزیراعظم جموں آیا. وہاں اس نے مسلم نمائندگان کے وفد سے ملاقات کی. اس وفد میں چوہدری غلام عباس، اے آر ساغر اور دیگر رہنما شامل تھے. ان رہنماؤں نے وزیراعظم کو اپنے مطالبات پیش کیے وزیراعظم نے ان مطالبات کو بغور سنا اور مسلمانوں کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اس نے مسلمان رہنماؤں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ ان کا ایک نمائندہ وفد مہاراجہ ہری سنگھ سے بھی ملاقات کرے.


صوبہ کشمیر میں بھی ان واقعات کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جاتا تھا. ینگ میز مسلم ایسوسی ایشن کی سری نگر شاخ اور ریڈنگ روم فتح کدل سے وابستہ نوجوانوں نے متحرک کردار ادا کیا۔ ایسوسی ایشن نے سیالکوٹ سے اشتہارات شائع کروا کر لائے جنہیں شیخ محمد عبداللہ، مولوی عبدالرحیم اور غلام نبی گلوکار نے رات کی تاریکی میں شہر میں چسپاں کیا۔ دوسرے روز تحریک کا ایک کارکن محمد اسماعیل دن کے وقت اشتہار چسپاں کر رہا تھا کہ اسے ریاستی پولیس نے گرفتار کر لیا۔ محمد اسماعیل کی گرفتاری کے خلاف شیخ عبداللہ کی قیادت میں ایک عظیم الشان احتجاجی جلوس نکالا گیا۔ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے پولیس نے محمد اسماعیل کو رہا کر دیا۔ یہی محمد اسماعیل تحریک حریت کشمیر کا پہلا سیاسی قیدی کہلاتا ہے. 


وادی میں دو ممتاز مذہبی شخصیات میر واعظ مولانا یوسف شاہ اور میر واعظ احمد اللہ ہمدانی عوامی حلقوں میں گہرا اثر رکھتے تھے. اس احتجاجی تحریک میں یہ حضرات بھی شامل ہو گئے تو تحریک نے ایک طوفانی رخ اختیار کر لیا. اسی اثناء میں شیخ محمد عبداللہ کو سرکاری ملازمت سے برطرف کر دیا گیا. کیونکہ وہ بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لے رہے تھے. ان کی ملازمت سے برطرفی اس تحریک کے لیے جلتی پر تیل کا کام کر گئی۔ شیخ صاحب کھل کر میدان عمل میں کود پڑے۔ 


خانقاہ محلہ میں اجتماع۔

 21 جون 1931 کو خانقاہ محلہ میں مسلمانان کشمیر کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا۔ اس تحریک کا یہ پہلا جلسہ تھا جس میں پچاس ہزار افراد شریک ہوئے۔ اس اجتماع میں بچے اور عورتیں بھی بڑی تعداد میں شامل تھیں۔ اس اجتماع کی صدارت میر واعظ مولانا یوسف شاہ اور احمد اللہ ہمدانی نے کی۔ جبکہ مفتی جلال الدین، شیخ محمد عبداللہ، خواجہ غلام احمد حشائی، مولوی عبدالرحیم اور خواجہ غلام نبی گلوکار نے تقاریر کی. اس موقع پر شیخ عبداللہ نے نہایت جذباتی تقریر کی اور قرآن پاک ہاتھ میں اٹھا کر تحریک سے وفادار رہنے کا حلف بھی اٹھایا.


آخر میں مہاراجہ ہری سنگھ سے مجوزہ ملاقات کے لیے سات رکنی وفد کی تشکیل عمل میں لائی گئی. اس میں خواجہ سعد الدین شال، میر واعظ مولانا یوسف شاہ، میروعظ احمد اللہ ہمدانی، آغا سید حسین شاہ جلالی، خواجہ غلام احمد حشائی، مفتی شہاب الدین اور شیخ محمد عبداللہ شامل کیے گئے. جموں سے چار مسلم نمائندے پہلے ہی اس وفد کے لیے منتخب ہو چکے تھے. ان میں مستری یعقوب علی, سردار گوہر رحمان, چوہدری غلام عباس اور شیخ عبدالحمید ایڈووکیٹ شامل تھے.


عبدالقدیر کی تقریر، گرفتاری اور مقدمہ 

جونہی یہ جلسہ ختم ہوا تمام مسلمان رہنما چائے پینے چلے گئے. لوگ ابھی منتشر نہیں ہوئے تھے کہ ایک اجنبی نوجوان اسٹیج پر چڑھا اور تقریر کرنے لگا. اس کی تقریر کا لب و لباب یہ تھا.


مسلمانوں اب وقت آگیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے. یاداشتوں اور گزارشوں سے ظلم و ستم میں کوئی فرق نہیں آئے گا. نہ ہی توہین قرآن کا مسئلہ حل ہوگا. تم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ ظلم کے خلاف ڈٹ جاؤ اس نے راج محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دو. 


اس اجنبی کی تقریر جذبات سے بھری ہوئی تھی. جس سے مسلمانوں میں بے پناہ جوش و جذبہ پیدا ہو گیا. یہ نوجوان تقریر ختم کر کے فوراً وہاں سے چلا گیا. شام کے وقت پولیس نے اسے بغاوت یا انتشار پھیلانے کے الزام میں نسیم باغ کے ایک ہاوس بوٹ سے گرفتار کر لیا. عبدالقدیر کی اصلیت سے کوئی آدمی آگاہ نہیں تھا. وہ بظاہر مسلمان تھا اس نے مسلمانوں کی ہمدردی کی بات کی تھی۔ اس لیے جب اس کی گرفتاری کی خبر مسلمانوں نے سنی تو انہیں شدید دکھ ہوا۔


مسلمان رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ عبدالقدیر کے مقدمے کی پیروی وہ خود کریں گے۔ اس سلسلے میں مولوی محمد عبداللہ ایڈووکیٹ، پیر قمر دین اور مسٹر غلام محمد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی۔ عبدالقدیر کی رہائی کے لیے احتجاجی جلسے بھی شروع ہو گئے۔ چونکہ ریاست میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا سیاسی مقدمہ تھا اس لیے لوگوں کی اس میں دلچسپی بہت بڑھ گئی۔


عبدالقدیر کو جب جیل سے عدالت لایا جانے لگا تو لوگوں کا ہجوم اس کے ساتھ چلتا اور پولیس حفاظت میں بھی اس کے ہاتھ اور کپڑے چوم چوم کر اس سے اظہار ہمدردی کرتے. 


عبدالقدیر کون تھا 

دوران تحقیقات یہ بات سامنے آئی کہ اس اجنبی نوجوان کا نام عبدالقدیر ہے اور یہ یو پی کا رہنے والا پٹھان ہے. یہ ایک انگریز فوجی آفیسر میجر بٹ کے ساتھ خانسامہ کے روپ میں سری نگر آیا ہوا تھا. بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ مکمل تحقیقات کے بعد ثابت ہوا کہ عبدالقدیر برٹش انٹیلیجنس کا ایک اہلکار تھا. جسے اشتعال دینے یا بغاوت پھیلانے کی تربیت دے کر انگریز آفیسر کے ہمراہ سری نگر بھیجا گیا تھا. کیونکہ ان دنوں سری نگر کا ماحول خاصہ گرم تھا. 


مہاراجہ ہری سنگھ کا ردعمل 

انہی دنوں مہاراجہ ہری سنگھ گول میز کانفرنس سے واپس وطن پہنچا. اس نے اپنی غیر موجودگی میں پیش آمدہ حالات و واقعات پر سخت غم و غصے اور افسوس کا اظہار کیا. اس نے مذکورہ بالا افسوس ناک واقعات کا ذمہ دار حکومت کی بجائے متعلقہ افراد کو ٹھہرایا اور انہیں سزا کا مستحق قرار دیا. اس نے 9 جولائی کو ایک اعلان جاری کیا.


 میرا مذہب انصاف ہے میرے رعایا کے ادنی سے ادنی انسان میرے پاس براہ راست آزادی سے آ سکتے ہیں اور میری رعایا کو جو شکایت ہوں وہ میرے پاس پیش کر سکتے ہیں. 


 مہاراجہ نے مسلمانوں کی جاری کردہ تحریک کو بیرونی مداخلت کا نتیجہ قرار دیا اور کہا.


 میری بالکل خواہش نہیں ہے کہ اپنی رعایا کی جائز معروضات اور آواز کو چاہے وہ تحریری ہو یا زبانی ہو روکا جائے. اس نے ان شرائط کی پابندی لازمی قرار دی. سیاسی تحریک چلاتے وقت ملکی قانون کو پیش نظر رکھا جائے. بیرونی مداخلت کو کسی قسم کا موقع نہ دیا جائے. 


 مہاراجہ نے بیرونی عناصر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا. 

آپ لوگ میری ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں جیسا کہ میں آپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا. 


 12 جولائی کو گاؤں کدل میں ایک جلسہ عام ہوا جس میں مقررین نے عبدالقدیر کے خلاف ہونے والی کارروائی کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ عبدالقدیر کے مقدمے کی سماعت جیل کے بند کمرے میں نہ کی جائے بلکہ یہ سماعت عدالت کے کھلے احتاطے میں کی جائے. اگلے روز یعنی 13 جولائی کو عبدالقدیر کے کیس کی سماعت تھی. چنانچہ مقررین نے عوام سے درخواست کی کہ وہ کل سینٹرل جیل کے باہر پہنچ جائیں۔ یہ جلسہ رات بارہ بجے اختتام پذیر ہوا۔


 13 جولائی 1931 کا دن۔

 13 جولائی 1931 کو صبح سویرے سینکڑوں مسلمان سینٹرل جیل سری نگر کے باہر جمع ہو گئے۔ یہ جیل میں عبدالقدیر کے مقدمے کی سماعت کا پہلا دن تھا۔ جونہی سیشن جج پنڈت کرشن لال جیل کے دروازے پر پہنچا بہت سے لوگ اس کی گاڑی کے ساتھ جیل میں داخل ہو گئے۔ جج نے عبدالقدیر کے وکیل مولوی عبداللہ کو ہدایت کی کہ وہ لوگوں کو پرامن رہنے کی تلقین کرے اور انہیں کہے کہ وہ جیل کے احاطے سے نکل جائیں. 


چنانچہ لوگ جیل کے احاطے سے نکل کر جیل کے صدر دروازے کے باہر جمع ہو گئے اور عدالتی کارروائی کا انتظار کرنے لگے. دن کے ایک بجے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مسٹر ترلوک چند موقع پر پہنچ گیا اس نے آتے ہی پولیس کو حکم دیا کہ جن لوگوں نے جیل میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے انہیں فورا گرفتار کر لیا جائے. یہ حکم ملتے ہی پولیس نے کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیا. 


پولیس کی اس کاروائی کے خلاف لوگ اشتعال ہو گئے اور عبدالقدیر کے حق میں اور حکومت کے خلاف نعرے لگانے لگے. لوگ اشتعال میں آ کر قیدیوں کو چھڑانے کے لیے دوبارہ جیل کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہونے کی کوشش کرنے لگے. پولیس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں 17 افراد موقع پر دم توڑ گئے. جب کہ 40 افراد شدید زخمی ہو گئے زخمیوں میں سے 5 افراد بعد ازاں جامعہ مسجد میں دم توڑ گئے. اس طرح اس واقعہ میں کل 22 افراد شہید ہو گئے.


 13 جولائی کو سینٹرل جیل کے باہر جب مجمع عام پر گولی چلائی گئی اس وقت سینکڑوں لوگ وہاں موجود تھے لیکن کوئی بھی نمایاں لیڈر اس روز وہاں نہ آیا. مشتعل ہجوم نے پولیس کے رہائشی کوارٹرز کو آگ لگا دی۔ انہوں نے آس پاس سے چارپائیاں اکٹھی کیں اور شہداء اور زخمیوں کو ان پر ڈال کر ان کے خون آلودہ کپڑوں کو لہراتے ہوئے ایک جلوس کی شکل اختیار کر لی۔ یہ جلوس آؤ فریاد کرتے ہوئے اور قرآن پاک کی آیات کا ورد کرتے ہوئے جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا۔ لوگ اس ہجوم کے ساتھ شامل ہو رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد سارا سری نگر آہوں اور سسکیوں میں ڈوب گیا۔ 


شہداء کا یہ جلوس مختلف راستوں سے ہوتا ہوا جامع مسجد سرینگر پہنچ گیا۔ شیخ عبداللہ، چوہدری غلام عباس اور دیگر رہنما واقعہ کی اطلاع ملتے ہی جامع مسجد پہنچے جہاں تمام شہداء کی لاشیں رکھی گئیں. حکومت نے شہر میں کرفیو لگا دیا اور جگہ جگہ فوج تعینات کر دی. شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس سمیت تمام مسلمان رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا .کل 326 لوگ گرفتار کیے گئے شہر میں خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ دوسرے روز بھی شہداء کی لاشوں کی تدفین نہ ہو سکی. بالآخر 15 جولائی کو قبرستان نقشبند میں ان شہداء کو ایک ہی احاطے میں دفن کیا گیا اور اس کا نام شہداء رکھا گیا.


وادی کشمیر میں اس واقعہ کے خلاف 17 روز ہڑتال رہی. جس سے تمام کاروبار حکومت معطل ہو کر رہ گیا. دفاتر بند ہو گئے. ٹرانسپورٹ رک گئی اور گلیاں بازار سنسان ہو گئے. جموں سری نگر شاہراہ کئی روز تک سنسان رہی. 


13 جولائی اہمیت و افادیت 

13 جولائی کا واقعہ تحریک آزادی کشمیر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے. اس واقعہ کو تحریک آزادی کشمیر کا نقطہ آغاز بھی کہا جاتا ہے. کیونکہ اس واقعے سے پہلے تحریک آزادی سہمی سہمی اور خوفزدہ تھی. اس کے گرد مصلحتوں اور مفادات کے پہرے لگے ہوئے تھے۔ یہ یاداشتوں اور گزارشوں کی حد تک محدود تھی۔ لیکن اب اس میں نئی جان اور نئی روح پیدا ہو گئی تھی۔ یہ نئے عزم ولولے کے ساتھ اٹھی تھی۔ اب یہ تحریک آؤ افغان اور نالہ و فریاد کے دور سے نکل کر سرفروش اور سربکف ہو گئی تھی۔ ایک ایسی قوم جس کی کم ہمتی اور بزدلی مثال بنتی جا رہی تھی اس نے اس تاثر کو آن واحد میں جھٹکا دیا اور سروں پر کفن باندھ کر شہادت کے رجز گانے لگی۔ 


یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ظالمانہ اور جابرانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اور عزت و آزادی کی صبح بہاراں کا منظر دیکھنے کے لیے لہو کے نذرانے دینا پڑتے ہیں اور سروں کی فصل کٹانا پڑتی ہے. وطن اور قوم کی خاطر دی گئی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتی. بشرطیہ ان قربانیوں کا تسلسل جاری رکھنے والے اور شہیدوں کے مشن کے حقیقی وارث زندہ ہوں. 


13 جولائی کے عظیم سانحے میں دم توڑتے ہوئے ایک مجاہد نے شیخ محمد عبداللہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہی پیغام دیا تھا. شیخ عبداللہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا. اب آگے بڑھنا آپ کا کام ہے.


شیخ عبداللہ اپنی سوا چنار میں لکھتے ہیں 13 جولائی کو کشمیری عوام پر فائرنگ ہوئی. اور میں نے محسوس کیا کہ ہر گولی نے میری چھاتی میں سوراخ کر دیا. اس فائرنگ کے بعد ہی میری عملی سیاسی زندگی کا آغاز ہو گیا. اس فائرنگ میں بے شمار افراد زخمی ہو گئے. میں ایک زخمی کو سنبھال رہا تھا. اس نے دم توڑتے ہوئے آواز میں مجھ سے کہا. عبداللہ میں نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے. اب آگے بڑھو اور میں آگے بڑھنے لگا. 


13 جولائی کے ان بائیس شہیدوں نے عزم و ہمت اور جرات و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کے لیے جو تابندہ روایت قائم کی تھی اس کی ایک گواہی اس وقت کے وزیراعظم نے شہیدوں کا معائنہ کرنے کے بعد یوں دی تھی.


 ان جوانوں کی بہادری پر مجھے حیرت ہوئی ہے. گولیاں سب نے سینوں پر کھائی ہیں. پیٹھ پر کسی آدمی نے بھی گولی نہیں کھائی. 


پنڈت پریم ناتھ بزاز اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں. 13 جولائی کا واقعہ سیاسی اور تاریخی اعتبار سے تاریخ کشمیر کا ایک عظیم ترین سانحہ ہے. تنگ نظر اور فرقہ پرست ہندوؤں نے اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی. مگر اس مظاہرے کا پس منظر ثابت کرتا ہے. کہ اس عوامی شورش کی تہہ میں جو جذبہ کام کر رہا تھا. وہ آزادی کی تڑپ اور ڈوگرہ سامراج کے خلاف نفرت تھی. لہذا ہجوم نے جہل پر شورش کی اسے ہندوؤں پر حملہ ہرگز نہیں قرار دیا جا سکتا. مظاہرین اگرچہ سارے کے سارے مسلمان تھے مگر اس کی روح سراسر غیر فرقہ وارانہ تھی یہ مظاہرہ ظالم کے خلاف مظلوم کا اعلان جنگ تھا.


اس عظیم سانحہ نے کشمیر کی تحریک آزادی کی بنیاد رکھی قربانی کا جو تسلسل اس روز سے شروع ہوا تھا وہ تحریک مستقبل کے لیے نشانہ راہ یا روشن ستارہ ثابت ہوا.


چوہدری غلام عباس اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں. ایسا دن اگر کیلنڈر میں موجود نہ ہوتا یقیناً ریاست جموں کشمیر کی سیاسی تاریخ جو 1931 سے لے کر آج تک مرتب ہو رہی ہے اور آئندہ بھی مرتب ہوتی رہے گی بالکل مختلف ہوتی.


ڈاکٹر صلاح الدین کی رائے ہے. 13 جولائی 1931 کا دن کشمیر کی سیاسی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل کیونکہ اس دن تحریک حریت کی ابتدا خون شہدا سے ہوئی اور یہ پہلا قطرہ نا حق تھا جس نے تحریک حریت کی داستان کو رنگین بنایا اور شخصی حکومت و حکمرانی کو ہمیشہ معتوب و مغزوب کر کے دفن کر دیا.


13 جولائی 1931 کے واقعہ نے ڈوگرہ شاہی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا اور حکومت یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ اگر اس نے مسلمانوں کی شکایات مسائل کو اہمیت نہ دی اور انہیں نظر انداز کیا تو آئندہ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں. 


25 جولائی کو مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاستی وزیراعظم کو برطرف کر دیا. اس کی جگہ پنڈت ہری کشن کول کو وزیراعظم بنایا گیا. مہاراجہ نے اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے کمیشن ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سربر جور دلال کی سربراہی میں قائم کیا. مسلمان راہنماؤں کو کمیشن کا ممبر بننے کی دعوت دی گئی۔ لیکن مسلمانوں نے اس کا بائیکاٹ کیا اور ممبر بننے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ یہ کمیشن کام نہ کر سکا۔ 


بعد ازاں مہاراجہ ہری سنگھ نے برطانوی حکومت ہند کے ایک آفیسر مسٹر بی جی گلانسی کی سربراہی میں دوسرا کمیشن مقرر کیا۔ اس کے تقرر پر مسلمانوں نے خوشی کا اظہار کیا جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی نمائندگی بھی تھی۔ چنانچہ اس کمیشن نے تحقیقات کے بعد جو سفارشات حکومت کو پیش کیں۔ ان کے نتیجے میں مسلمانوں کو آئینی طور پر خاطر خواہ کامیابیاں حاصل ہوئیں۔   


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے