یاسین ملک کون ہیں : جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کی زندگی پر مختصر نظر

 یاسین ملک کون ہیں 

اس مضمون میں ہم یاسین ملک صاحب کی ابتدائی زندگی، ذاتی زندگی، سیاست، مسلح جدوجہد، پرامن جدوجہد اور ان پر لگائے گئے الزامات کا تفصیلی جائزہ لیں گے. 

یاسین ملک کون ہیں : جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کی زندگی پر مختصر نظر
Who is YASIN MALIK 


ذاتی زندگی 

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک 3 اپریل 1963 کو سرینگر کے ایک گنجان آباد علاقے مائسُمہ میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے. ان کے والد کا نام غلام قادر ملک تھا. یاسین ملک نے ایس پی کالج سرینگر سے اپنی گریجویشن مکمل کی.  یاسین ملک پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں . 2009 میں یاسین ملک نے پاکستانی فنکار مشال حسین ملک سے شادی کی۔ مارچ 2012 میں ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام رضیہ سلطانہ رکھا گیا ۔ یاسین ملک علامہ اقبال کی شاعری اور امام غزالی کی تحریروں میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے. 



ابتدائی زندگی

یاسین ملک کا کہنا تھا کہ نوجوانی کے ابتدائی دنوں میں انھوں نے سیکورٹی فورسز کے تشدد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا. 1980 میں سیکورٹی فورسز اور ٹیکسی ڈرائیور کے درمیان جھگڑا دیکھ کر وہ باغی ہو گے تھے. یاسین ملک کم سنی میں ہی علیحدگی پسند صفوں میں شامل ہو گئے تھے اور 1980 میں انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے "Tala'' کے نام سے ایک انقلابی جماعت بنائی ۔ 


13 اکتوبر 1983 میں شیرِ کشمیر سٹیڈیم سرینگر میں انڈیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہونے والے عالمی ایک روزہ کرکٹ مقابلے کے دوران انڈیا مخالف نعرے بازی اور پتھراو کے الزام میں یاسین ملک کئی ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیے گئے تھے۔ اسی دوران نیشنل کانفرنس کے اجتماعات میں خلل ڈالنے اور مقبول بٹ شہید کی پھانسی کے خلاف احتجاج کرنے کے جرم میں کئی ماہ تک نظر بند رکھا گیا. 


سیاست 

رہائی کے بعد 1986 میں انھوں نے " Tala Party " کا نام تبدیل کر کہ " مسلم سٹوڈنٹ لیگ " رکھا. اس وقت یاسین ملک اس پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے. مسلم سٹوڈنٹ لیگ نوجوان کی ایک اہم تحریک بن گئ اس کے اراکین میں اشفاق مجید وانی، جاوید میر اور عبدالحمید شیخ تھے. 


1987 کے انتخابات کے دوران یاسین ملک کی قیادت میں مسلم اسٹوڈنٹس لیگ نے مسلم یونائیٹڈ فرنٹ (MUF) میں شمولیت اختیار کر لی. اسلامک اسٹوڈنٹس لیگ نے کوئی نشست نہیں لڑی کیونکہ یہ آئین پر یقین نہیں رکھتی تھی ۔ لیکن اس جماعت نے سری نگر کے تمام حلقوں میں ایم یو ایف کے لیے مہم چلانے کی ذمہ داری لی۔


جماعت اسلامی کے ترجمان کے مطابق (MUF) میں شامل ہونے والی تمام جماعتیں یا تو رائے شماری کی حامی تھیں یا خود مختاری کی حامی تھیں۔ جماعت کے ایک اور رکن کے مطابق، ISL کو MUF میں بھرتی کیا گیا تھا تاکہ حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کی "غنڈہ گردی" کا مقابلہ کرنے کے لیے "اسٹریٹ پاور" فراہم کی جا سکے. 


اسکالر Sumantra Bose کا کہنا ہے کہ جیسے ہی ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی، یہ واضح ہوگیا کہ یوسف شاہ بھاری اکثریت سے جیت رہے ہیں۔ تاہم مخالف نیشنل کانفرنس امیدوار غلام محی الدین شاہ کو فاتح قرار دیا گیا۔ یوسف شاہ اور یاسین ملک کو جموں و کشمیر پولیس نے گرفتار کر لیا اور 1987 کے آخر تک بغیر کسی  الزام، عدالت میں پیشی یا کسی مقدمے کے قید میں رکھا گیا۔ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی اطلاع ملی تھی، جو کہ مبینہ طور پر نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ نے حکومت ہند کے ساتھ مل کر انجام دی تھی۔ پولیس نے کسی بھی شکایت کو سننے سے انکار کردیا۔ نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد کو اسمبلی میں 62 نشستوں کے ساتھ فاتح قرار دیا گیا، اور اس نے حکومت بنائی۔


 یاسین ملک ابتدائی پرامن جدوجہد کے دور میں 1986/87 میں ساتھیوں سمیت ایک سال تک بھارت کی بدنام زمانہ Red 16 interogation cell میں قید رہے بدترین تشدد سے heart disease کا بھی شکار ہوگئے.


مسئلہ جدوجہد ( عسکریت پسندی ) 

 جیل سے رہائی کے بعد یاسین ملک پاکستان کے زیرانتظام کشمیر چلے گئے جہاں انھوں نے مبینہ طور پر مسلح تربیت حاصل کی۔ وہ 1989 میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) کے بنیادی رکن کے طور پر وادی کشمیر میں واپس آئے ، اور اپنے ہدف کو سابقہ ​​ریاست جموں و کشمیر کی مکمل آزادی قرار دیا. 


یاسین ملک نے حامد شیخ ، اشفاق وانی اور جاوید احمد میر کے ساتھ مل کر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حاصل کردہ اسلحہ اور تربیت کے ساتھ واپس آنے والے JKLF عسکریت پسندوں کا ایک گروپ بنایا - اس گروپ کا نام یاسین ملک، حامد شیخ ، اشفاق وانی اور جاوید احمد میر کے نام کے پہلے حروف کو ملا کر رکھا گیا. اس گروپ کو "HAJY" گروپ کہا جاتا تھا ۔ 

 

1989 میں یاسین ملک کی قیادت میں لبریشن فرنٹ نے جیل سے اپنے ساتھیوں کو رہا کروانے کے لیے اُس وقت کے انڈین وزیرداخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کیا  اور کئی روز کے مذاکرات کے بعد جب تنظیم کے کئی  لیڈروں کو رہا کیا گیا تو روبیہ سعید کو بھی رہا کر دیا گیا تھا۔


مارچ 1990 میں اشفاق وانی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی میں شہید ہو گئے۔ اگست 1990 میں یاسین ملک کو زخمی حالت میں پکڑا گیا۔ وہ مئی 1994 تک قید رہے۔ 


کئی برس تک مسلح سرگرمیاں جاری رکھنے کے بعد 1994 میں یاسین ملک نے بھارتی فورسز کے خلاف یکطرفہ سیز فائر کا اعلان کر کے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو ایک سیاسی تنظیم قرار دے دیا اور عہد کیا کہ وہ مسلہ کشمیر حل کرنے کے لیے عدم تشدد کی پالیسی پر گامزن رہیں گے۔ اسی سال علیحدگی پسندوں کا اتحاد حریت کانفرنس بھی وجود میں آیا اور یاسین ملک بھی اس کے مرکزی رہنماوٴں میں شامل ہوگئے۔


اکتوبر 1999 میں یاسین ملک کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور پھر 26 مارچ 2002 کو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیا گیا جہاں سے وہ ایک سال بعد رہا ہوے. 



رہائی کے بعد یاسین ملک نے پاکستانی صدر اور وزیراعظم، ہندوستانی وزیراعظم اور عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں.  


یاسین ملک نے 1988 میں مسلح جدوجہد شروع کرنے کے بعد نہ صرف عملی میدان میں مسلح تحریک کی قیادت کی بلکہ ان تمام مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کیا جو مسلح تحریک میں متوقع تھے۔ عسکری کاروائیوں میں کئی بار شدید زخمی ہوئے حتی کے ایک کاروائی کے دوران ایک بلند و بالا عمارت سے گرنے کی وجہ سے کئی ہفتوں تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہے جسم کا دائیاں حصہ تقریبا" مفلوج ہوگیا، مسلح تحریک کے چیف کمانڈر کی حیثیت سے گرفتار ہونے کےبعد کئی سال تک ہندوستانی عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کا شکار رہے، دو سال پاگل خانے میں رکھا گیا 4 سال تک قید تنہائی میں رہے. 


عسکری تحریک میں بیرونی مداخلت کے زور پکڑنے اور پراکسی کی شکل اختیار کرنے کی صورت میں فیلڈ میں موجود JKLF کے بے یارومددگار عسکریت پسندوں کے قتل عام کے باعث اور انسانی حقوق کے اداروں اور علمبردار شخصیات کی طرف سے گارنٹی کی صورت میں تحریک کو کچلنے سے بچانے کیلئے جیل میں سے ہی  بندوق چھوڑ کر سیاسی و سفارتی محاذ پر جدوجہد کا اعلان کیا ۔ 


اس اعلان کےبعد بھی JKLF کے ساڑھے پانچ سو کارکنان کو پراکسی لڑائی میں چن چن کر شہید کیا گیا ۔


پرامن جدوجہد 

یاسین ملک کئی سالہ قید سے رہائی کے بعد سیاسی و عوامی محاذ پر تحریک کو منظم کرنے کیلئے کشمیر کے شہروں، قصبوں دور دراز دیہاتوں کی طرف نکلے 2005 میں دستخطی مہم میں 25 لاکھ افراد کے دستخطوں اور 2007 میں 6 ماہ طویل " سفر آزادی " کی صورت میں عوام کو تحریک کے ساتھ سیاسی محاذ میں جوڑنے میں کامیاب ہوئے. اس مہم کی عکس بندی اور کشمیر کے بارے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں کشمیریوں کو کلیدی کردار دینے کا مطالبہ لے کر وہ 2006 میں اس وقت کے انڈین وزیراعظم منموہن سنگھ سے بھی ملے تھے۔


فروری 2013 میں اسلام آباد میں ایک احتجاجی مظاہرے میں یاسین ملک نے لشکر طیبہ کے صدر حافظ سعید کے ساتھ اسٹیج شئر کیا جس کی بھارت نے مذمت کی. 



12 جنوری 2016 کو جب پاکستان نے گِلگِت بلتستان کو پاکستانی وفاق میں ضم کیا تو انھوں نے اُس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو خط لکھ کر اس اقدام کی مخالفت کی ۔


یاسین ملک نے سیاسی و سفارتی تحریک کو انتہائی ایمانداری اور جرات سے لیڈ کیا اس دوران سینکرون بار تشدد اور گرفتاریوں کا شکار رہے ۔ زندگی کے اب تک تقریبا" 17 سال جیل کاٹ چکے 400 سے زائد بار گرفتار ہوئے ۔ قریبی رشتہ داروں، دوستوں اور ساتھیوں کے جنازے اٹھا چکے ہیں لیکن جموں کشمیر کی آزادی و خودمختاری کی جدوجہد پر ان کٹھن ترین اور پرمصائب حالات کے باوجود ذرہ برابر کمپرومائز نہیں کیا ۔ 


یاسین ملک پر الزامات 

22 فروری 2019 میں یاسین ملک کو گرفتار کیا گیا. 


مارچ 2020 میں یاسین ملک اور ان کے چھ ساتھیوں پر 25 جنوری 1990 کو راولپورہ، سری نگر میں ہندوستانی فضائیہ کے 40 اہلکاروں پر حملہ کرنے اور 4 اہلکاروں کو قتل کرنے کے الزامات لگائے گئے.  یاسین ملک کو روبیہ سعید کے اغوا اور اس کے نتیجے میں پانچ عسکریت پسندوں کے تبادلے کے مقدمے کا سامنا تھا۔


2017 میں، ہندوستان کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) نے مختلف علیحدگی پسند رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کی فنڈنگ ​​کا مقدمہ درج کیا، اور 2019 میں دائر کی گئی چارج شیٹ میں یاسین ملک اور چار دیگر افراد کو نامزد کیا۔ کشمیر میں بدامنی کے دوران خاص طور پر 2010 اور 2016 میں دہشت گردانہ سرگرمیاں اور پتھراؤ کے الزامات یاسین ملک پر لگائے گئے. 

۔


19 مئی 2022 کو، ملک کو این آئی اے عدالت نے ریاست کے خلاف سازش اور جنگ چھیڑنے کے الزام میں مجرم قرار دیا، اور بعد ازاں انہیں عمر قید کی دو گنتی اور پانچ 10 سال قید کی سزا سنائی گئی، یہ سب ایک ساتھ منعقد کیے جائیں گے۔ 


سزا کے فیصلے سے قبل یاسین ملک کا کہنا تھا کہ انصاف کی بھیک نہیں مانگوں گا، جو سزا دینی ہے دیدیں۔


یاسین ملک پر بھارت کے متنازع ترین قانون یو اے پی اے کی دفعات 16، 17، 18 اور 20 کے تحت دہشت گردی کی کارروائیاں میں ملوث ہونے، دہشت گردی کے لیے فنڈز جمع کرنے، دہشت گردی کی سازش کرنے اور دہشت گرد گروہ کا رکن ہونا الزامات لگائے گئے تھے .


یاسین ملک ایک عہد کا نام ہے کشمیریوں کی آزادی کا سمبل ہیں یاسین ملک. یاسین ملک زندہ جاوداں رہیں گے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے