پنڈت پریم ناتھ بزاز | قائد تحریک آزادی کشمیر | Pandit Prem Nath Bazaz biography in urdu

 پنڈت پریم ناتھ بزاز (1900ء - 1984ء)

 پنڈت پریم ناتھ بزاز 1900ء کو سری نگر کے موضع سوناواری میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد ریاستی پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل تھے۔ 1927ء میں ایس پی کاج سری نگر سے بی اے کرنے کے بعد پریم ناتھ بزاز نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی لیکن ملازمت ان کی آزاد منش طبیعت کو راس نا آئی کیونکہ ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا. چنانچہ وہ 1930ء کو ملازمت سے مستعفی ہو گئے اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے ۔

پنڈت پریم ناتھ بزاز کشمیری رہنما |  Pandit Prem Nath Bazaz biography in urdu | قلمی، سیاسی اور صحافتی زندگی
Pandit Prem Nath Bazaz 


ابتدائی سیاست 

1931ء کو انھیں کشمیری پنڈتوں کی جماعت سناتن دھرم یوک سبھا کا صدر نامزد کیا گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں کشمیری پنڈت آپ کو اپنا نمائندہ سمجھنے لگے ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے جب گلانسی کمیشن کا تقرر عمل میں لایا تو پنڈت پریم ناتھ بزاز کو وادی کشمیر کے غیرمسلموں کے نمائندے کی حیثیت سے اس کمیشن میں بطور ممبر نامزد کیا گیا۔ اس کمیشن میں آپ نے نہایت جرات مندانہ اور مثبت کردار ادا کیا۔ پنڈتوں نے آپ کو کمیشن سے علیحدگی اختیار کرنے پر بہت زور دیا لیکن آپ نے تعمیری جذبے کے تحت ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔


صحافت  

1932ء میں انہوں نے "وتستا" کے نام سے سری نگر سے ایک اردو اخبار جاری کیا۔ یہ وادی کشمیر سے شائع ہونے والا پہلا اخبار تھا۔ اس اخبار کی روش بڑی آزادانہ اور جرات مندانہ تھی. 1934ء میں یہ اخبار بعض وجوہات کی بناء پر بند ہوگیا۔ 1935ء میں پنڈت پریم ناتھ بزاز نے شیخ عبداللہ کے تعاون سے سری نگر سے ایک اور اخبار” ہمدرد “ جاری کیا۔ ریاست کی صحافتی تاریخ میں ”ہمدرد “ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس دور میں اس اخبار کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ 


سیاست و صحافت 

مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدلنے کے لیے پنڈت پریم ناتھ بزاز نے بنیادی کردار ادا کیا۔ 1939ء میں جب نیشنل کانفرنس قائم ہوئی تو پنڈت پریم ناتھ بزاز  اس میں شامل ہو گئے اور مجلسِ عاملہ کے رکن بنے لیکن تھوڑے عرصے بعد جب نیشنل کانفرنس کا جھکاؤ آل انڈیا نیشنل کانگریس کی طرف ہونے لگا تو پنڈت پریم ناتھ بزاز نے اس جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی اور آل انڈیا ریڈیکل ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہو گئے ۔ ایم این رائے اس جماعت کے سربراو تھے۔ تھوڑے عرصے بعد وہ اس جماعت سے الگ ہو گئے اور انہوں نے جمہوریت اور سوشلزم کے فروغ کے لیے اپنی الگ جماعت” کشمیر سوشلسٹ پارٹی“ قائم کی ۔


 1943ء میں پنڈت پریم ناتھ بزاز نے” ہمدرد “کو ڈیلی اخبار میں بدل لیا۔ وہ اب تصنیف و تالیف کا کام بھی کرنے لگے ۔ اسی سال ان کی کتاب ” گاندھی ازم“ جناح ازم اور سوشلزم“ شائع ہوئی۔ 


کسان مزدور کانفرنس

1945ء میں شیخ عبداللہ کی پالیسیوں کے سبب نیشنل کانفرنس سے علیحدگی اختیار کرنے والے بہت سے سیاسی کارکنوں نے” کسان مزدور کانفرنس“ کی بنیاد رکھی ۔ چونکہ یہ جماعت کمزور اور پسماندہ طبقوں کی ترجمانی کے لیے قائم کی گئی تھی. عبدالسلام یاتواس اس کے صدر تھے ۔ پنڈت پریم ناتھ بزاز اس جماعت کے پروگرام اور پالیسی سے متاثر ہوکر اس میں شامل ہو گئے۔ بعدازاں اس جماعت کی ساری باگ ڈور پنڈت پریم ناتھ بزاز کے ہاتھ میں آ گئی۔ بزاز کی کوششوں سے یہ جماعت کسانوں ، مزدوروں اور دیگر پسے ہوئے طبقوں کی ترجمان بن گئی۔ 


شیخ عبداللہ کی مخالفت اور قاتلانہ حملہ 

1946ء میں جب شیخ عبداللہ نے” کشمیر چھوڑ دو “ تحریک چلائی تو بزاز نے اس کی کھل کر مخالفت کی اور شیخ عبداللہ کے عزائم کو بے نقاب کیا۔ رفتہ رفتہ نیشنل کانفرنس بزاز صاحب کو اپنے راستے میں رکاوٹ خیال کرنے لگی. چنانچہ نیشنل کانفرنس کے چند غنڈوں نے 10 اپریل 1947ء کو ان پر اس وقت حملہ کر دیا جب وہ دفتر سے واپس گھر آ رہے تھے۔ حملہ آوروں نے ان پر گولیاں برسائیں جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گئے ۔ کئی روز تک موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد بالآخر وہ صحت یاب ہو گئے۔ 


قید اور جلاوطنی 

1947ء میں تقسیم ہند کا منصوبہ سامنے آنے کے بعد بزاز نے مہاراجہ ہری سنگھ کو مشورہ دیا کہ ریاست کو اگر آزاد رکھنے کے بجائے دونوں ملکوں میں سے کسی ایک سے الحاق کرنا ہو تو پاکستان سے الحاق کو ترجیح دی جائے اس سلسلے میں لوگوں سے بھی راے لی جائے۔ اس نظریے کی پاداش میں بزاز کو 22 اکتوبر کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور تقریبا 3 سال تک جموں کے گرم ترین مقامات پر زندان خانوں میں رکھا گیا۔ رہائی کے بعد شیخ عبداللہ کی حکومت نے انہیں جبری طور پر جلاوطن کر ہندوستان بھیج دیا۔ دہلی میں جلاوطنی کے ایام میں اگرچہ وہ عملاً سیاسیات کشمیر میں حصہ نہ لے سکے لیکن فکری اور قلمی محاز پر انہوں نے تحریک آزادی کشمیر کی لڑائی جاری رکھی۔ ان کی تصانیف انگریزی میں ہیں۔ آخری عمر میں وہ دلی سے ایک رسالہ بھی شائع کرتے رہے۔ بالآخر وطن سے دور وطن کا یہ عاشق 7 جولائی 1984ء کو وفات پا گیا۔


شہرہ آفاق تصنیف 

پنڈت پریم ناتھ بزاز کشمیر کی سیاست و صحافت میں بلند مقام رکھتے ہیں. وہ ایک آزاد، روشن خیال، غیر تعصب اور جمہوری مملکت جموں کشمیرکا قیام عمل میں لانا چاہتے تھے لیکن سیاست کے میدان میں جب وہ اپنے اس خواب کو حقیقت میں نہ بدل سکے تو انہوں نے کشمیر کی سیاست اور تاریخ پر قلم اٹھایا اور گراں قدر تصانیف رقم کیں ۔ ان کی سب سے اہم اور شہرہ آفاق تصنیف "The History of struggle for freedom in Kashmir" ہے۔ یہ کتاب 1955ء میں دہلی سے شائع ہوئی۔ بعدازاں 1976ء میں پاکستان سے بھی شائع ہوئی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ریاست جموں و کشمیر کے مایہ ناز فرزند عبدالحمید نظامی نے کیا جیسے ویری ناگ پبلشرز میرپور نے 1992ء میں شائع کیا۔

کچھ مستقل کے بارے 

اس کتاب کے آخری باب کا عنوان ہے” کچھ مستقبل کے بارے“. اپنے وطن کے مستقبل کا خاکہ کھنچتے ہوئے پنڈت پریم ناتھ بزاز نے 1955ء میں جو نقشہ کھینچا تھا اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔

” میں اپنے طور اور میری طرح انداز فکر رکھنے والے تمام لوگوں کی طرف سے کہتا ہوں کہ مسئلہ الحاق کا فیصلہ کچھ بھی ہو ہمیں صرف یہ دیکھنے کی تمنا ہے کہ کشمیر برِعظیم میں ایک ایسی خودمختار اکائی کی حیثیت سے ترقی و عروج حاصل کرے جہاں کے باشندوں کو مکمل آزادی یعنی سیاسی ،سماجی ، اقتصادی، فکری و ذہنی اور روحانی لحاظ سے پوری آزادی نصیب ہو۔

ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کشمیر ایک بار پھر علم و فن ،تہذیب و تمدن کا گہوارہ ، امن کا مسکن ، وطن کے فرزندوں کی مان اور ستم دیدہ ایذا رسیدہ مظلوم انسانوں کی مہذب، رنگ اور قومیت کی تفریق کیے بغیر پناہ گاہ بن جائے۔

ہم ایسا کشمیر چاہتے ہیں جہاں ہر کوئی ڈر یا خوف کے بغیر سوچ سکے اور زندگی گزار سکے ۔ جہاں اسے اپنی ترقی کے لیے پورے مواقع حاصل ہوں ۔ جہاں انفرادی صلاحیتوں کے ابھرنے پر کوئی احتساب نہ ہو۔ جہاں لوگوں کو اپنے آپ پر پورا اعتماد ہو اور وہ کسی دیکھی یا ان دیکھی طاقت کے سہارے کی آس لگائے ہوئے نہ ہوں۔ جہاں کوئی مذہبی، نسلی اور اعتقادی تعصبات دلوں کو مسموم نہ کرتے ہوں۔ جہاں فکر و عمل کی دلیل راہ معقولیت پسندی ہو۔

 جہاں عورت کو غلامی کے بندھنوں سے آزاد کیا جا چکا ہو۔ جہاں خصوصی مراعات حاصل کرنے والے طبقے اور فرقے نہ ہوں۔ جہاں تعلیم سب کے لیے مفت اور عام ہو۔ جہاں مذہب کو رعایت کی مہر نہ سمجھا جائے ۔ جہاں انسان کو سماجی اور سیاسی حقوق سے مستفید ہونے کے لیے پیدائش کے امتیاز کو روانہ رکھا جائے۔

 جہاں ہر مرد اور عورت کو ترقی کرنے کا موقع حاصل ہو۔ جہاں سرمایہ پرست اور مخصوص مفادات محنت کشوں کو لتاڑتے نہ ہوں۔ جہاں جہالت کے بل بوتے پر ملاوں اور مذہبی جنونیوں کو فروغ حاصل نہ ہو۔ جہاں عقائد، فہم و فراست کی وقعت نہ گھٹاتے ہوں، جہاں افلاس ماضی کی بات ہو اور عوام اچھا کھاتے ہوں، اچھا پہنتے ہوں، اچھی رہائش رکھتے ہوں اور پوری طرح سیر چشم ہوں۔

ہم ہر کشمیری کو سچائی کا متلاشی، علم کا پیاسا، ظن تخمین اور تجسس کا مادہ رکھنے والا اور اس کے ساتھ ہی ہر قسم کے خیالات کے ساتھ یہ خواہ اس کے لیے کتنے ہی نا قابل قبول کیوں نہ ہوں، رواداری برتنے والا فرد دیکھنا چاہتے ہیں“.

پریم ناتھ بزاز کی دیگر تصانیف حسب ذیل ہیں۔

"Inside Kashmir"

 "Azad Kashmir"

 "Trouth about Kashmir"

(عبدالاحد آزاد ) شاعر انسانیت 

"The shadow of Ram Rajia over India" 

"Kashmir in Crucible"

پنڈت پریم ناتھ بزاز نے کشمیر کی سیاست اور صحافت میں ایک نئے دور کی بنیاد رکھی۔ انہیں اس نئے دور کا پیامبر کہا جاتا ہے۔ کشمیر کے نامور قلم کار اور دانشور محمد یوسف ٹینگ نے کشمیر کے اس مایہ ناز سپوت کو یوں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سرزمینِ کشمیر اپنے اس باعزم اور روشن دماغ سپوت کوفراموش نہ کر پائے گی۔ آنے والا یُگ اسی کا ہے۔ علامتوں میں بات کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دور میں تڑک پھڑک والا حاکم زینت طاق نسیاں ہو جائے گا اور پریم ناتھ بزاز دل و دماغ میں اجالا کرتا رہے گا- 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے