خواجہ غلام نبی گلوکار | قائد تحریک آزادی کشمیر | Who is Khawaja Ghulam Nabi Gilkar in urdu

 خواجہ غلام نبی گلوکار ( 1909ء -1973ء )

خواجہ غلام نبی گلوکار انور سرینگر میں مارچ 1909ء کو پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام خواجہ محمد خضر تھا۔ جن کا پیشہ "گلوکاری“ تھا۔ اسی مناسب سے خواجہ صاحب گلوکار کہلائے۔ 12 برس کی عمر میں ماں باپ کے سائے سے محروم ہو گئے۔ سری نگر شہر کے مقامی دینی مدرسے میں انہوں نے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی پھر اسلامیہ ہائی سکول اور ایس پی سکول میں حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ نے ایس پی کالج سری نگر سے ایف اے کا امتحان اس وقت دیا جب آپ جیل میں تھے۔ اسی طرح بی اے کا امتحان بھی آپ نے سنٹرل جیل سری نگر میں دیا۔

خواجہ غلام نبی گلوکار | قائد تحریک آزادی کشمیر | Who is Khawaja Ghulam Nabi Gilkar in urdu
Khawaja Ghulam Nabi Gilkar

زمانہ طالب علمی اور سیاست

آپ زمانہ طالب علمی سے ہی آزادی کشمیر کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔1930ء میں کسی قسم کا سیاسی جلسہ کرنا یا پارٹی بنانا قانونی طور پر ممنوع تھا. چنانچہ آپ نے مسجدوں ، دعوتوں ، خانقاہوں، میلوں اور دیگر اجتماعات میں جا کر اصلاح احوال اور عوامی بیداری کی تحریک شروع کی ۔ ایس پی کالج میں دوران تعلیم آپ کی کاوشوں سے مسلمانوں کی ایک تنظیم” آل کشمیر مسلم سوشل اپ لفٹ ایسوسی ایشن“ قائم ہوئی جس کے آپ بانی صدر تھے۔ چونکہ ان دنوں کشمیر میں سیاسی جماعت بنانے کی اجازت نہ تھی اس لیے سری نگر کے پڑھے لکھے نوجوانوں نے دارالمطالعہ (ریڈنگ روم ) قائم کرنے کا پروگرام بنایا تاکہ نوجوانوں کے مسائل پر مل بیٹھ کر غور و فکر کیا جائے. تحریکِ آزادی کشمیر کے ابتدائی محرکات میں ریڈنگ روم کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ چونکہ یہیں سے انقلابِ کشمیر کی تحریک اٹھی اور پوری ریاست جموں کشمیر میں پھیل گئی۔ خواجہ غلام نبی گلوکار اس ریڈنگ روم کے سرکردہ ممبر تھے۔ ریڈنگ روم اور آل کشمیر مسلم سوشل آپ لفٹ ایسوسی ایشن کی ان سرگرمیوں کے سبب اندر ہی اندر ریاست میں انقلاب کا لاوا پکتا رہا۔

 انہی دنوں کی بات ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ دورہ یورپ سے واپس کشمیر آنے لگا تو ریڈنگ روم کے نوجوانوں نے خوشامدنہ استقبال کے بجائے اپنا نقطہ نظر، حقوق اور مطالبات مہاراجہ کے سامنے پیش کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس مقصد کے پیش نظر ریڈنگ روم نے جامع مسجد سری نگر میں ایک جلسہ عام بلایا، مگر حکومت نے حکم امتناعی جاری کر کے جلسے کو روکنے کا حکم دے دیا۔ ریڈنگ روم نے خواجہ غلام نبی گلوکار کو حکم امتناعی توڑنے کے لیے ڈکٹیٹر مقرر کیا۔ یہ واقعہ 1931ء کا ہے. چنانچہ خواجہ صاحب نے جرآت مندی دکھائی اور حکم کو توڑتے ہوئے جامع مسجد سرینگر میں جلسہ عام میں پرجوش تقریر کر کے اپنا نقطہ نظر عوام کے سامنے رکھا۔

1932ء میں جن لوگوں نے مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ان میں خواجہ صاحب کا کردار نمایاں ہے۔ 13 جولائی 1931ء کے عظیم سانحے کے نتیجے میں 14 جولائی کو شیخ عبداللہ اور غلام نبی گلوکار کو حکومت نے گرفتار کر لیا اور قلعہ ہری پربت میں بند کر دیا۔ اس کے بعد مستری یعقوب علی، سردار گوہر رحمان اور چوہدری غلام عباس گرفتار ہوئے ۔ 

1931ء کے جلسہ عام میں آپ نے ہزاروں افراد کے سامنے تقریر کرتے ہوئے وصیت کی تھی. ” اگر میں مارا جاؤں یا مر جاؤں تو میری لاش کو بجائے قبرستان کے، کسی ایسے چوراہے پر دفن کر دیا جائے جو آزادی ملنے کے بعد مجاہدینِ آزادی کی گزرگاہ ہو تا کہ ان کے گزرنے اور چلنے کی آواز سے میری روح کو تسکین ملے“.


1931ء میں جب تحریک زوروں پر تھی تو ڈوگرہ حکومت نے آپ کو لالچ دے کر خریدنا چاہا لیکن چونکہ قومی غیرت کا جذبہ آپ کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس لیے آپ نے ہر قسم کی لالچ اور مفاد کو ٹھکرا دیا۔ 1931ء سے 1947ء تک آپ کو چھ بار قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔

1946 کے الیکشن میں بطور امیدوار 

1946ء میں ریاستی اسمبلی پرجا سبھا کے انتخابات ہوئے جس میں آپ سری نگر سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑے، ڈوگرہ حکومت نے آپ کو ہرانے کی بھرپور کوشش کی لیکن آپ ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب جیت گئے۔ 

انقلابی حکومت کا قیام 

1947ء میں جب ہندوستان سے برطانوی اقدار ختم ہوا اور 14، 15 اگست کو ہندوستان اور پاکستان معرض وجود میں آئے تو ڈوگرہ حکومت کے خلاف ریاستی عوام نے بغاوت شروع کر دی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں ایک آزاد انقلابی حکومت قائم کی گئی۔ یہ حکومت 4 اکتوبر 1947ء کو جمہوریہ جموں کشمیر کے نام سے معرض وجود میں آئی۔ یہ انقلابی حکومت خواجہ غلام نبی گلکار انور نے قائم کی تھی۔ 

اس وقت کے ہنگامی حالات میں سیاسی مصلحت کے پیش نظر آپ کا خفیہ نام انور رکھا گیا تھا چنانچہ انور کے نام سے ہی آپ نے ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کو معزول کرنے کا اعلان جاری کیا۔ جس کا مسودہ آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھا۔ یہ فرمان کشمیری کارکنوں کے ایک اجلاس منعقدہ پیرس ہوٹل راولپنڈی میں منظور ہوا۔ اس سلسلے میں 5 اکتوبر 1947ء کو پرشین ہاؤس صدر راولپنڈی میں ایک اور میٹنگ منعقد ہوئی جس میں 100 کے قریب نمائندوں نے شرکت کی ۔ اس میٹنگ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ 4 اکتوبر کی نئی آزاد حکومت کی پوری طرح مدد اور حمایت کی جائے گی ۔ خواجہ صاحب نے نئی حکومت کا جو اعلان جاری کیا اسے پاکستان اور دنیا کے دیگر اخبارات میں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ اس اعلان کو ریڈیو پاکستان نے بھی نشر کیا۔

آپ نے جو انقلابی حکومت قائم کی اس کے ممبران حسبِ ذیل تھے۔

سردار ابراہیم خان (وزیراعظم)

مولوی غلام حیدر جنڈالوی ( وزیر دفاع ) 

نذیر حسین شاه (وزیر مال ) 

ڈاکٹر نذیر الاسلام (وزیر تعلیم )

ڈاکٹر وزیر احمد قریشی (وزیر صحت و صفائی )

عبدالرحیم درانی (سیکرٹری دفاع) 

ڈاکٹر محمود آف پونچھ (ڈائریکٹر میڈیکل سروسز ) 

خلیفہ عبدالمنان (چیف انجینئر ) 

مسٹر حکیم (انسپکٹر جنرل پولیس ) 

جزل محمد اکبر کیانی (ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ) 

مسٹر رحمت اللہ (سیکرٹری ٹرانسپورٹ ) 

خواجہ عبدالغفار ڈار ( پبلسٹی آفیسر ) قد

سردار گل احمد خان کوثر ( چیف پبلسٹی آفیسر )۔ 

آزاد حکومت تشکیل دینے کے بعد یہ عظیم مجاہد آزادی 6 اکتوبر کو سرینگر کی طرف روانہ ہو گیا تا کہ مہاراجہ کا تخت الٹا جا سکے ۔ جہاں پر ان کو 14 دسمبر 1947ء کو گرفتار کر لیا گیا۔ وہ 13 ماہ کی گرفتاری کے بعد رہا ہو کر پاکستان آئے تو آپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خودمختار کشمیر کا نظریہ پیش کیا۔ آپ نے اس نظریے کو بلا خوف و خطر اور وقعتی مصلحتوں سے آزاد ہو کر نہایت جرات سے پیش کیا۔ 

آپ کا کہنا تھا: ” ریاست کے ہر فرد و بشر کو یہ حق ہے کہ وہ جو رائے اپنے ملک کے مستقبل کے متعلق دینا چاہے دے سکتا. کوئی شخص اسے اس آزادانہ اظہار رائے سے روکنے کا حق نہیں رکھتا “ - 

مسلم کانفرنس میں شمولیت 

خواجہ صاحب کچھ عرصہ تک مسلم کانفرنس سے وابستہ رہے. لیکن مسلم کانفرنس کی تحریک آزادی کے منافی سرگرمیوں سے نالاں ہو کر آپ نے 1956ء کے اوائل میں کشمیر ریپبلکن پارٹی کا قیام عمل میں لایا۔ خودمختار کشمیر کا قیام اس پارٹی کا نظریہ تھا۔ اس نظریے کے پرچار کے لیے آپ نے ایک اخبار” ہمارا کشمیر“ جاری کیا۔ 

پاکستان میں گرفتاری اور الیکشن میں حصہ 

3 جولائی 1959ء میں حکومت پاکستان نے آپ کو نظریہ خودمختار کشمیر اور تقسیم کشمیر کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں گرفتار کر لیا اور جبر و تشدد کا نشانہ بنایا۔ 1961ء میں جب کے ایچ خورشید کے دور حکومت میں آزاد کشمیر کے پہلے صدارتی انتخابات عمل میں آئے تو خواجہ صاحب واحد کشمیری راہنما تھے جو نظریہ خودمختار کشمیر کے منشور پر ایکشن لڑے ۔ 

محاذ رائے شماری 

1963ء میں چند باشعور کشمیریوں نے” Kashmir Independence Comati” کے نام سے ایک نئی جماعت قائم کی۔ اس جماعت کے قیام میں خواجہ غلام نبی گلوکار نے بنیادی کردار ادا کیا۔ 1965ء میں جب سیالکوٹ کے مقام پر محاذ رائے شماری کا پہلا اجلاس ہوا تو آپ کو محاذ کا نائب صدر مقرر کیا گیا۔ آپ کشمیر کو مکمل طور پر آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتے تھے اس مقصد کی خاطر آپ ساری زندگی مصروف عمل رہے۔ بالآخر کشمیر کے اس عظیم سپوت نے 1973ء میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔

آپ نے فرمایا تھا:

میں ریاست کی آزادی اور سالمیت کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوں ۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے زر دے کر عہدے کا لالچ دے کر نہیں خرید سکتی البتہ محبت اور دلائل کے ذریعے خریدا جا سکتا ہے۔ باقی رہا مارنا وہ صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے۔ میں جیل کی دھمکیوں سے نہیں گھبراتا ۔ اگر کوئی برسرِ اقتدار حکومت مجھے جیل میں ڈال کر دیکھتی ہے کہ میں اپنے مطالبہ آزادی سے باز رہوں تو یہ اس کی بھول ہے۔ میں نے 1931ء میں کشمیری عوام سے وعدہ کیا تھا کہ میں انہیں کھبی فروخت نہیں کروں گا۔ ان کے حقوق کی حفاظت سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ میرے نزدیک سیاست میں جھوٹ بولنا جائز نہیں۔

(بحوالہ” ہمارا کشمیر“ 25 نومبر 1952ء) 


” آخر ہم نے بھی مرنا ہے۔ ہم قیامت کے روز شہداء کی ان پاک روحوں کو کیا جواب دیں گے، اگر ہمارے ارادوں میں ذرا بھر لغزش آئی اور ہم نے اپنے اقتدار کے لیے قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دے دی تو قوم اور ملت کے لیے ذلیل ہونا اس عزت سے بدرجہ بہتر ہے جس سے قوم اور ملک ذلیل ہو“۔

” آزاد کشمیر کے عوام کو ذہن سے یہ بات نکال دینی چاہیے کہ وہ شخصیت پرستی سے کامیاب ہوں گے۔ وہ صرف اصول پرستی سے ہی کامیاب ہوں گے، شخصیتیں آتی اور چلی جاتی ہیں لیکن اصول دیرپا ہوتے ہیں.“

( سر فروش 16 اکتوبر 1956ء )



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے