چوہدری غلام عباس | سیاست کشمیر کی نامور شخصیت | Chaudhary Gulam Abbas Biography in urdu

 چوہدری غلام عباس ( 1904ء - 1967ء )

چوہدری غلام عباس 4 جنوری 1904ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام چوہدری نواب دین تھا۔ جنہوں نے جالندھر سے آ کر جموں کشمیر ریزیڈنسی میں ملازمت اختیار کر لی تھی ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے عرائض نویسی کا پیشہ اختیار کر لیا۔ ان کا تعلق رانگڑ قبیلے سے تھا۔

چوہدری غلام عباس | سیاست کشمیر کی نامور شخصیت | Chaudhary Gulam Abbas Biography in urdu
Chaudhary Gulam Abbas 


ابتدائی زندگی 

چوہدری غلام عباس نے ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول جموں سے حاصل کی۔ 1921ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد انہوں نے پرنس آف ویلز کالج جموں میں داخلہ لے لیا۔ 1925ء میں انہوں نے بی اے پاس کیا تو محکمہ قانون میں بھرتی ہو گئے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد ہی ملازمت چھوڑ کر ہائی سکول جموں میں بطور معلم بھرتی ہو گئے۔ یہاں بھی طبیعت راس نہ آئی تو ملازمت چھوڑ کر 1929ء میں لاء کالج لاہور میں داخلہ لے لیا. 1931ء میں انہوں نے قانون کا امتحان پاس کیا۔



ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن

چوہدری غلام عباس جس زمانے میں پرنس آف ویلز کالج جموں میں زیر تعلیم تھے انہوں نے پہلے سے قائم ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کو اپنے چند دیگر ساتھیوں کی مدد سے از سرِ نو منتظم کیا۔ اس سے وہ سماجی کاموں میں دلچسپی لینے لگے ۔ 1924ء میں وہ اس انجمن کے صدر منتخب ہوئے۔ اس انجمن کا کام مسلمانوں کی فلاح و بہبود تھا۔ علاوہ ازیں اس انجمن نے مسلمانوں کو دین اسلام کی طرف راغب کرنے اور اپنے حقوق کی طرف متوجہ ہونے کا احساس بھی پیدا کیا۔ 

1931ء میں جموں میں توہینِ مذہب کے کچھ واقعات پیش آئے۔ ان واقعات کے خلاف ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے چوہدری غلام عباس اور ان کے ساتھیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ 13 جولائی 1931ء کے عظیم سانحہ کے نتیجے میں ریاست کے جن مسلمان راہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ان میں چوہدری غلام عباس بھی شامل تھے۔

مسلم اور نیشنل کانفرنس میں خدمات 

1932ء میں ریاستی مسلمانوں نے آل جموں کشمیر مسلم کانفرس کے نام سے نمائندہ سیاسی جماعت قائم کی تو چوہدری غلام عباس اس کے پہلے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب کیے گئے ۔ 1939ء میں جب مسلم کانفرنس کا نام بدل کر اسے نیشنل کانفرنس بنا دیا گیا تو چوہدری غلام عباس نیشنل کانفرنس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ 1942ء میں جموں اور وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے چند مخلص راہنماؤں کی کوششوں سے مسلم کانفرنس کا احیاء عمل میں آیا تو چوہدری غلام عباس مسلم کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے۔ 

1946ء میں نیشنل کانفرنس کی” کشمیر چھوڑ دو “ تحریک کے جواب میں مسلم کانفرنس نے” فری کشمیر “ کا منشور جاری کیا۔ اکتوبر 1946ء کو ڈائریکٹ ایکشن کے نام سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو چوہدری غلام عباس اور ان کے بہت سے دوسرے ساتھی گرفتار کر لیے گئے۔ ان راہنماؤں کو اس وقت رہائی ملی جب بر عظیم تقسیم کے عمل سے گزر چکا تھا اور ریاست جموں کشمیری جبراً تقسیم ہو گئی۔

جب جلاوطن کر کہ پاکستان بھیج دیے گئے 

یکم مارچ 1948ء کو چوہدری غلام عباس کو شیخ عبداللہ کی حکومت نے رہا کر کے سوچیت گڑھ کے راستے پاکستان بھیج دیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں مہاجرین کی آبادکاری کے معاملات کا نگران اعلی مقرر کیا۔ اس کے علاوہ آپ کو تحریک آزادی کشمیر اور آزاد کشمیر حکومت کا سپریم ہیڈ بھی نامزد کیا گیا۔ لیکن جب وزارت امور کشمیر نے جلد ہی ان کا یہ عہدہ ختم کر دیا تو وہ سخت مایوس ہو گئے۔ اور عملی طور پر سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔

کشمیر لبریشن موومنٹ کا قیام 

1958ء میں انہوں نے حکومت پاکستان کی کشمیر پالیسیوں سے مایوس ہو کر کشمیر لبریشن موومنٹ شروع کی۔ وہ جنگ بندی لائن عبور کرنے کے لیے راولپنڈی سے کشمیر کی کنٹرول لائن کی طرف جا رہے تھے کہ اپنے ساتھیوں سمیت کوہالہ کے مقام پر گرفتار کر لیے گئے۔ اور کئی ماہ تک گرفتار رہے۔ رہائی کے بعد چوہدری صاحب سیاسیات کشمیر سے بالکل کنارہ کش ہو گئے مسلم کانفرنس میں دھڑے بندی اور دن بدن بڑھتے ہوئے انتشار و خلفشار کے سبب وہ جماعتی سیاست سے بھی الگ تھلگ ہوگئے۔

وفات اور آخری وصیت 

بالآخر وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوئے ۔ راولپنڈی اور لندن میں زیر علاج رہنے کے باد 18 دسمبر 1967ء کو دائی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ چوہدری غلام عباس نے مرتے وقت وصیت کی کہ انہیں آزاد کشمیر میں دفن نہ کیا جائے بلکہ راولپنڈی میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ ان کی وصیت کے مطابق انہیں راولپنڈی میں فیض آباد کے مقام پر دفن کیا گیا۔ جیسا کہ چوہدری غلام عباس کی آخری وصیت سے عیاں ہے وہ پاکستان کے زبردست شیدائی تھے اور پاکستان کو ہی اپنی منزل مراد سمجھتے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ ہمیشہ مصروف جدوجہد رہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے