مسئلہ کشمیر کا تاریخی پس منظر ، حالات و واقعات ، اقوام متحدہ کی قراردادیں | جموں کشمیر انفو

 مسئلہ کشمیر کا تاریخی پس منظر

برِعظیم ہند اور سنٹرل ایشیاء کے سنگم پر واقع خطہ کشمیر ہزار ہا سال سے ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے اپنی جداگانہ شناخت اور تشخص رکھتا ہے۔ یہ ملک مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا مسکن ہے۔ اپنے فطری حسن و جمال اور وسائل سے مالا مال ہونے کے سبب پڑوسی مملکتوں اور بیرونی حملہ آوروں نے اسے کئی بار اپنی ہوسِ ملک گیری اور جارحیت کا نشانہ بنایا۔ مغلوں کے عہد (1586ء) سے پہلے یہ ایک آزاد، پرامن اور خوشحال ملک تھا، لیکن مغلوں، افغانوں اور سکھوں نے یکے بعد دیگرے اس پر قبضہ کر کے ایک طرف اس کی آزاد حیثیت ختم کر دی اور دوسری طرف یہاں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا ۔

مسئلہ کشمیر  پس منظر حالات و واقعات اقوام متحدہ کی قراردادیں
the Kashmir conflict in urdu 


 16 مارچ 1846 کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین طے پانے والے معاہدہ امرتسر کی رو سے اس ریاست کا اقتدار اعلی جموں کے ڈوگرہ خاندان کے پاس آ گیا۔ ڈوگرہ عہد میں کشمیری عوام نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے لازوال جدوجہد کی جس کے نتیجے میں انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ۔


 

یہ عہد 1846ء سے 1947ء تک محیط ہے۔ آئینی حقوق کی جدوجہد اور سیاسی شعور کی بیداری کے نتیجے میں ریاست میں جو عوامی تحریکیں اٹھیں ان کے سبب ریاست میں سیاسی جماعتیں قائم ہوئیں ۔ 1934ء میں کشمیر اسمبلی کا قیام عمل میں آیا۔ ہندوستان بھر کی شخصی ریاستوں میں ریاست جموں و کشمیر کو تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے منفرد حیثیت حاصل تھی۔


the Kashmir conflict in urdu 

دوسری جنگ عظیم (1939ء - 1945ء) میں معاشی طور پر مفلوج ہونے کے سبب جب انگریز سامراج نے برِصغیر کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا تو 3 جون 1947ء کو ایک منصوبہ طے پایا جس کے مطابق وائسرائے ہند کے زیرانتظام برطانوی ہند کو دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم کیا جانا تھا جبکہ تاج برطانیہ کے ماتحت 565 دیسی ریاستوں کو تقسیم ہند کے منصوبے کی رو سے یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہو جائیں یا آزاد و خودمختار رہیں ۔ 16 جون 1947ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے قانون آزادی ہند” Indian Independence Act “ پاس کیا جس کی دف 7 ذیلی دفعہ 2 کے تحت تاجِ برطانیہ کا ہندوستان سے اقتدار اعلی ختم کر دیا گیا اور تمام شخصی ریاستوں سے کئے گئے معاہدے کالعدم قرار دیئے گئے ۔ اس ایکٹ کی رو سے ریاستیں برطانوی اقتدار اعلی سے چھوٹ گئیں اور وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہو گئیں۔ ریاستوں پہ یہ پابندی عائد نہیں کی گئی تھی کہ وہ بھارت کے ساتھ شامل ہوں یا پاکستان کے ساتھ. کشمیر، حیدرآباد اور جونا گڑھ کی ریاستوں نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا۔ باقی تمام ریاستیں برضا و رغبت یا معروضی حالات کے سبب ہندوستان و پاکستان کے ساتھ شامل ہو گئیں۔ والیانِ ریاست کو ہدایت کی گئی کہ وہ 15 اگست 1947 سے پہلے پہلے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لیں ۔ مذکورہ بالا تینوں ریاستوں نے فیصلہ کرنے میں تاخیر کر دی. 14، 15 اگست 1947 کو ہندوستان کی تقسیم کے سبب پاکستان اور بھارت الگ الگ ملک کے طور پر آزاد ہوئے اور تاج برطانیہ کا اقتدار اعلی بظاہر ختم ہو گیا. 


حالات و واقعات

تقسیم ہند کے وقت ریاست جموں و کشمیر پر مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی ۔ مہاراجہ اپنی ریاست کو آزاد و خودمختار رکھنا چاہتا تھا اسی لیے اس نے دونوں آزار مملکتوں (بھارت، پاکستان) میں سے کسی ایک ساتھ الحاق کے بجائے دونوں کو دوستی اور مستقبل کے تعلقات کی استواری کے لئے 12 اگست 1947 کو ایک معاہدے کی پیش کش کی. جسے معاہدہ قائمہ ( Stand Still Agreement ) کہا جاتا ہے۔ پاکستان نے اس معاہدے کو تسلیم کر لیا جبکہ ہندوستان نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔



ابھی معاہدہ قائمہ کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ 22 اکتوبر 1947 کو معاہدہ قائمہ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پاکستان کے صوبہ سرحد کے ہزاروں مسلح قبائلیوں نے ریاست جموں کشمیر پر حملہ کر کے ریاست میں قتل و غارت ، لوٹ مار اور اغواء کا بازار گرم کر دیا۔ یہ مسلح قبائلی خون کی ہولی کھیلتے ہوئے سرینگر کے دروازے تک جا پہنچے. 


1947ء میں ریاست جموں کشمیر پر قبائلی حملے کی تفصیلات جاننے کے لیے حسبِ ذیل دو کتابوں کا مطالعہ ضرور کریں۔ " یادوں کے زخم“ از سعید اسعد. ” ایک ماں کی سچی کہانی “ از کرشنا مہتا “


مسلح قبائلیوں کے ہمراہ پاکستانی افواج کے آفیسر اور جوان بھی سادہ کپڑوں میں ملبوس شامل تھے. 26 اکتوبر 1947 کو اس صورت حال سے خوف زدہ ہو کر مہاراجہ ہری سنگھ دارالحکومت سرینگر سے بھاگ کر جموں چلا گیا ۔ اپنی ریاست اور عوام کو قبائلیوں سے بچانے کے لیے اس نے 26 اکتوبر 1947 کو گورنر جزل ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خط لکھ کر ہندوستان سے فوجی مدد طلب کی۔ ہندوستان نے فوجی مدد کو ریاست کے الحاق سے مشروط کیا۔ مجبوراً مہاراجہ سے ایک الحاق نامے پر دستخط لیے گئے اور 27 اکتوبر 1947 کو ریاستی دارالحکومت سرینگر کے ہوائی اڈے پر ہندوستانی تربیت یافتہ فوج اترنا شروع ہو گئی۔ پاکستانی فوج بھی اعلانیہ طور پر ریاست میں داخل ہوگئی ۔ دونوں ممالک کی افواج آمنے سامنے ہوئیں تو محاذ کشمیر پر زبردست جنگ چھڑ گئی۔



اقوام متحدہ اور جموں کشمیر

 اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یکم جنوری 1948 کو ہندوستان مسئلہ کشمیر کو UNO میں لے گیا. UNO میں ہندوستان نے شکایت کی کہ پاکستان نے ریاست جموں کشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے قبائلیوں سے حملہ کروایا ہے ۔ لہذا پاکستان کو کشمیر سے باہر نکالا جائے. سلامتی کونسل نے پاکستان کا موقف بھی سنا اور اس مسئلے پر متفقہ قراردادیں پاس کیں ۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلے کو "The situation in jammu Kashmir" کا عنوان دیا لیکن پاکستانی نمائندے ظفر اللہ خان کی تحریک پر اس عنوان کو بدل کر نیا عنوان "India Pakistan question" رکھا گیا۔ اقوام متحدہ نے 20 جنوری 1948ء کو ایک مخصوص کمیشن تشکیل دیا جسے UNCIP (یونائیڈ نیشن کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان) کا نام دیا گیا ۔ اس کمیشن نے تمام صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد بہت سی قراردادیں پاس کیں جن میں سے دو قراردادوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ پہلی قرارداد 13 اگست 1948ء کو پاس کی گئی۔ اس قرارداد میں کشمیری عوام کو غیر محدود اور غیر مشروط حق خودارادیت دیا گیا جبکہ دوسری قرارداد 5 جنوری 1949ء کو پاس ہوئی ۔ اس قرارداد کی شق 1 میں پاکستانی اور بھارتی مندوب کی تحریک پر غیر محدود حق خودارادیت کو الحاق بھارت یا الحاق پاکستان تک محدود کر دیا گیا۔ دونوں قراردادوں کا متن حسب ذیل ہے. 


مسئلہ کشمیر  پس منظر حالات و واقعات اقوام متحدہ کی قراردادیں


قرارداد 13 اگست 1948ء 

قرارداد جو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان نے 13 اگست 1948ء کو منظور کی


اقوام متحدہ کا کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان :- ریاست جموں و کشمیر کے متعلق ہندوستان اور پاکستان کے نمائندوں نے جس نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے اس پر پوری احتیاط کے ساتھ غوروفکر کے بعد، اور یہ رائے رکھتے ہوئے کہ مخالفانہ کارروائیوں اور اِن حالات کا فوری خاتمہ ضروری ہے۔ جن کا جاری رہنا بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے تا کہ کمیشن ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو اس صورت حالات کو قطعی طور پر حل کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو بروئے کار لا سکے۔


ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے سامنے ان تجاویز کو پیش کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔


حصہ اول 

التواۓ جنگ کا حکم 

ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اس امر پر اتفاق کرتی ہیں کہ ان کی اپنی اپنی ہائی کمان علیحدہ علیحدہ مگر بیک وقت التواء جنگ کا حکم جاری کر دیں گی جو ریاست جموں و کشمیر میں ان کے کنٹرول میں تمام فورسز پر حاوی ہوگا اور جو ان تجاویز کو دونوں حکومتوں کی طرف سے قبول کر لینے کے بعد جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ چار دن کے اندر جاری کر دیا جائے گا۔ 


ہندوستانی اور پاکستانی افواج کی ہائی کمان تسلیم کرتی ہیں کہ وہ ایسے تمام اقدامات سے اجتناب کریں گی جن سے ریاست جموں کشمیر میں ان کے کنٹرول میں فورسز کی فوجی طاقت میں اضافہ ہو جائے۔ ان تجاویز کے مطابق ان کے کنٹرول میں فورسز میں وہ تمام منظم یا غیر منظم فورسز شامل ہیں ۔ جو اس طرف جنگ اور مخالفانہ کارروائیوں میں مصروف ہوں۔

مسئلہ کشمیر  پس منظر حالات و واقعات اقوام متحدہ کی قراردادیں


ہندوستانی اور پاکستانی افواج کے کمانڈر ان چیف فوجوں کی موجودہ تعیناتی میں ایسی تبدیلیاں کرنے کے لیے جو کی جنگ بندی میں آسانیاں پیدا کریں فوری طور پر آپس میں صلاح و مشورہ کریں۔ 


کمیشن اپنی مرضی کے مطابق اور جہاں تک قابلِ عمل ہوگا، فوجی مبصر مقرر کرے گا ، جو کمیشن کے اختیارات کے تحت اور دونوں ہائی کمان کے تعاون سے التواۓ جنگ کے حکم کی پابندی کی نگرانی کریں گے۔ 


ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اپنی اپنی عوام سے یہ اپیل کرنے پر رضامندی کا اظہار کرتی ہیں کہ وہ ایسی فضا پیدا کرنے اور اسے بحال رکھنے میں مدد دیں جو مذاکرات کو جاری رکھنے کے لیے سازگار ہو۔


حصہ دوم 

جنگ بندی کا معاہدہ 

فوری طور پر جنگ بند کر دینے کے متعلق حصہ اول میں شامل تجاویز کو قبول کر لینے کے ساتھ ہی دونوں حکومتیں حسب ذیل اصولوں کو جنگ بندی کے سمجھوتہ کی بنیاد کے طور پر تسلیم کرتی ہیں۔ جس کی تفصیلات ان کے نمائندوں اور کمیشن کے درمیان بات چیت کے ذریعے طے کی جائیں گی۔



(الف)

 (۱) چونکہ ریاست جموں کشمیر میں پاکستانی فوج کی موجودگی اس صورت حالات میں نمایاں تبدیلی کے مترادف ہے جو اس نے سلامتی کونسل کے سامنے پیش کی تھی اس لیے حکومت پاکستان ریاست سے اپنی فوجوں کو واپس بلانے پر رضامند ہے. 


(۲) حکومت پاکستان اس امر کی پوری کوشش کرے گی کہ ریاست جموں و کشمیر سے قبائلی اور پاکستانی باشندے جو وہاں پر رہائش نہیں رکھتے ہیں اور لڑائی کی خاطر ریاست میں داخل ہوئے ہیں، ریاست سے واپس چلے جائیں ۔ 


(۳) جس علاقہ سے پاکستانی فوج کی واپسی عمل میں آ جائے گی اس کا نظم و نسق قطعی فیصلہ ہونے تک مقامی حکام اور کمیشن کی نگرانی میں ہو گا۔


(ب) 

جب کمیشن حکومت ہندوستان کو یہ اطلاع دے دے گا کہ قبائلی اور پاکستانی باشندے جن کا ذکر حصہ دوم ( الف، ٢) میں کیا گیا ہے۔ ریاست سے واپس چلے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ صورتحال ختم ہو گئی ہے جسے حکومت ہندوستان نے سلامتی کونسل کے سامنے ریاست میں اپنی فوجوں کی موجودگی کی وجہ قرار دیا تھا اور یہ کہ ریاست جموں و کشمیر سے پاکستانی فوجوں کی واپسی بھی عمل میں لائی جارہی ہے۔ حکومت ہندوستان اپنی افواج کے بیشتر حصہ کا انخلاء بیشتر مرحلوں میں، جو کمیشن کے ساتھ طے کر لیے جائیں گے، شروع کر دینے پر رضامندی کا اظہار کرتی ہے۔ 


(۲) ریاست جموں و کشمیر میں صورت حالات کے قطعی فیصلہ کے متعلق شرائط کی منظوری تک حکومت ہندوستان جنگ بندی لائن کی حدود کے اندر اپنی افواج کی اتنی کم سے کم تعداد رکھے گی جو کمیشن کی رضامندی کے مطابق امن و امان بحال رکھنے میں مقامی حکام کی مدد کے لیے ضروری ہو گی. کمیشن جہاں مناسب سمجھے گا، مبصر متعین کرے گا۔ 


(۳) حکومت ہندوستان یہ ذمہ داری قبول کرتی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی حکومت ایسے تمام ذرائع جو اس کے اختیار میں ہوں، اعلانیہ طور پر اس امر کا اظہار کر دے گی کہ امن و امان کو بحال رکھا جائے گا اور تمام انسانی و سیاسی حقوق کی ضمانت دی جائے گی۔


(ج) 

(١) دستخط ہو جانے کے بعد، جنگ بندی کے سمجھوتہ کا پورا متن یا اس کے اصولوں پر مشتمل ایک اعلامیہ جیسا کہ دونوں حکومتوں اور کمیشن کے درمیان طے ہوجائے گا، عام اطلاع کے لیے شائع کر دیا جائے گا۔


حصہ سوم 

حکومت ہندوستان اور حکومت پاکستان اپنی اس خواہش کا اعادہ کرتی ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی آئندہ حیثیت عوام کی خواہشات کے مطابق متعین کی جائے گی اور اس مقصد کے لیے ، جنگی سمجھوتہ کو قبول کر لینے کے بعد، دونوں حکومتیں کمیشن کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر رضامندی کا اظہار کرتی ہیں تا کہ ایسی منصفانہ شرائط طے کی جا سکیں جن کے تحت ایسی آزادانہ رائے کا اظہار یقینی ہو۔


قرارداد 5 جنوری 1949ء

اقوامِ متحدہ کا کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان

مسئلہ کشمیر کا تاریخی پس منظر حالات و واقعات اقوام متحدہ کی قراردادیں


حکومت ہندوستان اور پاکستان کی طرف سے ان کے خطوط مورخہ 23 دسمبر اور 25 دسمبر 1948ء کے ذریعے حسبِ ذیل اصولوں کو جنہیں کمیشن کی قرارداد 13 اگست 1948ء میں اضافہ کی حیثیت حاصل ہے، مکمل کرنے بعد:.


(١) ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کا فیصلہ غیر جانبدار اور منصفانہ رائے شماری کے جمہوری طریقہ کے مطابق کیا جائے گا۔


(٢) رائے شماری کا انعقاد اس وقت ہوگا جب کمیشن نے یہ معلوم کر لیا ک التوائے جنگ اور جنگ بندی کے انتظامات کمیشن کی قرارداد مورخہ 13 اگست 1948ء کے حصہ اول اور دوم میں کیا گیا ہے، پر عمل ہو گیا ہے اور راۓ شماری کے انتظامات مکمل ہو گئے ہیں۔


٣. (ا) اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کمیشن کی رضامندی سے ناظم رائے شماری کو نامزد کریں گے جو ایک اعلی بین الاقوامی شخصیت ہو گی اور جسے عام اعتماد حاصل ہوگا ۔ اسے ریاست جموں کشمیر کی حکومت رسمی طور پر اس کے عہدہ پر مقرر کرے گی.

 

(ب) ناظم رائے شماری ریاست جموں و کشمیر سے وہ اختیارات حاصل کرے گا جو وہ رائے شماری کے انتظام اور اہتمام اور اس کے غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انعقاد کے لیے ضروری تصور کرے گا۔


(ج) ناظم رائے شماری کو اختیار ہو گا کہ مبصرین کی مدد کے لیے جس قدر سٹاف کی ضرورت ہو اسے مقرر کر سکے۔


٤ . (١) کمیشن کی قرارداد مورخہ 13 اگست کے حصہ اول اور دوم پر عمل درآمد کے بعد اور جب کمیشن کو یہ اطمینان ہو جائے گا کہ ریاست میں پرامن حالات بحال ہو گئے ہیں تو کمیشن اور ناظم رائے شماری حکومت ہندوستان کے مشورہ سے ہندوستان اور ریاست کی مسلح افواج کو ہٹانے کا آخری فیصلہ کریں گے اور یہ فیصلہ ریاست کے تحفظ اور رائے شماری کی آزادی کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے گا۔


(ب) جہاں تک اس علاقہ کا تعلق ہے۔ جس کا ذکر قرارداد مورخہ 13 اگست کے حصہ دوم (١) میں کیا گیا ہے ۔ ناظم رائے شماری اور کمیشن اس علاقہ میں مسلح افواج کے متعلق آخری فیصلہ مقامی حکام کے مشورہ سے کریں گے۔


(٥) ریاست کے اندر تمام سول اور فوری حکام اور تمام بڑے بڑے سیاسی عناصر کو رائے شماری کی تیاری اور انعقاد میں ناظم رائے شماری کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا ۔


(1) ریاست کے تمام باشندوں کو جو بدامنی کی وجہ سے ریاست سے چلے گئے تھے واپس آ جانے کی دعوت دی جائے گی اور انہیں واپس آ کر شہریوں کی حیثیت سے تمام حقوق کے استعمال کا حق حاصل ہوگا ۔ ان کی واپسی میں مدد دینے کے لیے دو کمیشن مقرر کئے جائیں گے جن میں سے ایک ہندوستان کے نمائندوں پر اور دوسرا پاکستان کے نمائندوں پر مشتمل ہوگا۔ یہ کمیشن ناظم رائے شماری کی ہدایات کے مطابق کام کریں گے۔ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اور ریاست جموں کشمیر کے اندر تمام حکام اس دفعہ کو عملی جامعہ پہنانے میں ناظم رائے شماری کے ساتھ تعاون کریں گے. 


(ب) تمام ایسے افراد جو ریاست کے شہریوں کے علاوہ کسی دوسرے مقصد سے ریاست میں داخل ہوئے ہیں، انہیں ریاست سے واپس جانا ہوگا ۔


(٧) ریاست جموں کشمیر کے اندر تمام حکام یہ زمہ داری قبول کرتے ہیں کہ ناظم رائے شماری کے تعاون سے وہ اس امر کے پابند ہوں گے کہ. 


ا. رائے شماری کے دوران ووٹروں کو ڈرایا دھمکایا نہیں جائے گا نہ ان پر دباؤ ڈالا جائے گا اور نہ ہی انہیں رشوت دی جائے گی.


ب. ریاست بھر میں جائز سیاسی سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ ریاست کے تمام باشندے بلا لحاظ علاقہ، ذات یا جماعت اپنے خیالات کے اظہار میں اور ریاست میں پریس، تقریر اور اجتماع اور سفر کی آزادی ہو گی جس میں ریاست میں قانونی طور پر داخل ہونے اور باہر جانے کی آزادی بھی شامل ہے۔


(ج) تمام سیاسی قیدی رہا کر دیئے جائیں گے۔


(د) ریاست کے تمام حصوں میں اقلیتوں کی پوری حفاظت کی جائے گی۔


(ہ) کسی کو عتاب کا نشانہ نہیں بنایا جاۓ گا۔


٨. ناظم رائے شماری کو اگر بعض مسائل میں امداد کی ضرورت پیش آئے گی تو وہ کمیشن سے رجوع کرے گا اور کمیشن اگر مناسب سمجھے گا تو وہ اپنی طرف سے ناظم رائے شماری کو ایسی زمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا اختیار دے گا جو اسے سونپی گئی ہیں۔


٩. رائے شماری کے مکمل ہو جانے پر ناظم رائے شماری اس نتیجہ سے کمیشن اور ریاست جموں کشمیر کو مطلع کرے گا۔ اس کے بعد کمیشن سلامتی کونسل کے سامنے یہ تصدیق کرے گا کہ رائے شماری منصفانہ اور آزادانہ ہوئی ہے یا نہیں۔


١٠. جنگ بندی کے سمجھوتے پر دستخط کے بعد کمیشن کی قرارداد مورخہ 13 اگست 1948ء کے حصہ سوم میں تجویز کردہ صلاح و مشورہ کے مطابق متذکرہ بالا تجاویز کی مزید وضاحت کر لی جائے گی ۔ ناظم رائے شماری کو اس بات چیت میں برابر شریک رکھا جائے گا۔


کمیشن ہندوستان اور پاکستان سے سفارش کرتا ہے کہ کمیشن کی 13 اگست 1948ء کی قرارداد کے مطابق جو سمجھوتہ ہو چکا ہے اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ یکم جنوری 1949ء کی رات کے 12 بجے سے پہلے جنگ بند کر دینے کا حکم جاری کرنے کی فوری کارروائی کریں ۔


کمیشن فیصلہ کرتا ہے کہ 13 اگست 1948ء کی قرارداد اور متذکرہ بالا اصولوں میں اسے جو زمہ داریاں سونپی گئی ہیں ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے وہ مستقبل قریب میں برصغیر میں واپس چلا جائے۔


فریقین کی رضامندی سے طے پایا کہ مسئلہ کشمیر تین مراحل میں حل کیا جائیگا. 


١- جنگ بندی 

٢- فوجوں کی واپسی 

٣- رائے شماری 


اقوام متحدہ کی ایک سالہ بھرپور کوششوں سے طے شدہ فارمولے کے تحت یکم جنوری 1949ء کو سلامتی کونسل کی اپیل پر جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے دونوں ممالک نے جنگ بند کر دی۔ 27 جولائی 1949ء کو دونوں ممالک کی افواج کے مابین ایک جنگ بندی لائن کا تعین کیا گیا اور فریقین کو پابند کیا گیا کہ وہ اس لائن کو عبور نہ کریں۔ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے پر دوسرے مرحلے میں یعنی فوجوں کی واپسی پر عملدرآمد کے لیے کئی کمیشن مقرر کیے گئے اور ناظم رائے شماری کا تقرر ہوا ۔


یکے بعد دیگرے 26 اگست 1949ء کو جزل نمٹر، 17 دسمبر 1949 کو جنرل میگناٹن ، 12 اپریل 1950 کو سراوون ڈکسن ، 7 ستمبر 1951 کو ڈاکٹر فرینک پی گراہم وغیرہ مصالحت کنندہ کی حیثیت سے ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو کشمیر سے فوجوں کے انخلاء کے لیے رضامند کرنے کے لیے کراچی اور دہلی میں سرگرداں رہے۔ لیکن دونوں ممالک نے حیلہ سازی اور ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے فوجوں کے انخلاء پر عمل درآمد نہ کیا جس کے سبب ریاست میں رائے شماری کی نوبت ہی نہ آ سکی۔ 21 اپریل 1957 کو سویڈن کے نمائندے گنروی جيئرنگ کو ثالث مقرر کیا گیا۔ لیکن دونوں ملکوں کی ہٹ دھرمی کے سامنے اس کا بھی بس نہ چلا تو اس نے UNO میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے عندیہ ظاہر کیا کہ” دونوں ملک کشمیر سے فوجیں نکالنے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔“

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے